لاہور: کینال روڈ پر ہونے والے قتل میں ملوث حملہ آوروں کا کوئی سراغ نہیں ملا
لاہور پولیس کا آرگنائزڈ کرائم یونٹ (او سی یو) اب تک ان شوٹرز کا سراغ لگانے میں ناکام ہے جنہوں نے انڈر ورلڈ ڈان خواجہ طارق گلشن عرف طیفی بٹ کے بہنوئی جاوید بٹ کو قتل اور ان کی بہن (جاوید کی اہلیہ) کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک متعلقہ پیش رفت میں لاہور پولیس کی سفارشات پر قتل کیس کے 3 ملزمان مقتول امیر بالاج کے دو بھائیوں امیر مصعب، امیر فتح اور قیصر بٹ کے نام عارضی قومی شناختی فہرست (پی این آئی ایل) میں شامل کر لیے گئے ہیں۔
امیر فتح اور قیصر بٹ منگل کو اچھرہ پولیس تھانے میں درج کرائے گئے جاوید بٹ کے قتل کے مقدمے میں نامزد ہیں، جاوید بٹ کے بیٹے حمزہ جاوید کی شکایت پر درج ایف آئی آر میں دو دیگر حملہ آوروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
آرگنائزڈ کرائم یونٹ کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ کینال روڈ پر کرائم سین کے قریب نصب پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے تمام کیمرے ’غیر فعال‘ پائے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ کہ سیف سٹی کیمرے پولیس کے لیے اسٹریٹ کرائمز اور قتل کی وارداتوں میں ملوث افراد کا سراغ لگانے کا بنیادی ذریعہ ہیں، ماضی میں کیمروں کی مدد سے لاہور پولیس اور خاص طور پر او سی یو نے بہت سے جرائم پیشہ افراد کا سراغ لگا کر انہیں گرفتار کیا ہے، جس سے کئی ہائی پروفائل کیسز حل ہوئے۔
اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ خاص طور پر ان کیمروں نے لاہور میں ریاست مخالف سرگرمیاں کرنے والے متعدد دہشت گرد نیٹ ورکس کا سراغ لگانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
اہلکار کے مطابق ہمارے تفتیش کار یہ جان کر حیران رہ گئے کہ کینال روڈ پر پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے تمام پانچ کیمرے کام نہیں کر رہے تھے، یہ تشویشناک بھی ہے کیونکہ سڑک شہر کی اہم شریانوں میں سے ایک ہے، جو تقریباً روزانہ وی آئی پی اور وی وی آئی پیز کی نقل و حرکت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آرگنائزڈ کرائم یونٹ ٹیمیں حملہ آوروں کا سراغ لگانے کے لیے علاقے میں موجود کسی بھی نجی کیمروں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں، لیکن امید بہت کم ہےکیونکہ ان میں سے زیادہ تر آلات صرف قریبی گلیوں اور سڑکوں کا احاطہ کرتے ہیں۔
دریں اثنا، ایف آئی آر میں شکایت کنندہ حمزہ جاوید نے بتایا کہ حملے میں زخمی ہونے والی ان کی والدہ نے دونوں نامزد ملزمان کو اس وقت پہچان لیا جب انہوں نے مبینہ طور پر ان کے والد کی گاڑی پر فائرنگ کی۔
حمزہ نے بتایا کہ دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار حملہ آوروں نے اس وقت فائرنگ کی جب ان کے والد نے ایف سی سی انڈر پاس کے قریب گاڑی کی رفتار کم کی، ان کے والد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق جاوید بٹ کو جسم کے مختلف حصوں میں پانچ گولیاں لگی ہیں۔
قتل کے مقدمے میں نامزد ملزمان کے بارے میں ایک سوال پر اہلکار نے بتایا کہ قیصر بٹ بالاج کا قریبی دوست تھا، بالاج کو جنوری 2024 میں چوہنگ کے علاقے میں ایک شادی کی تقریب میں قتل کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بالاج کے قتل کیس میں شکایت کنندہ ان کا بھائی مصعب، 28 اگست کو پاکستان سے چلا گیا تھا۔
پولیس نے اسے ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا کیونکہ اس کے اہل خانہ نے ثبوت کے طور پر اس کی سفری دستاویزات پیش کردیں، دستاویز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس دن جاوید بٹ کو قتل کیا گیا تھا اس دن وہ ملک میں نہیں تھا۔
اہلکار نے بتایا کہ مقتول کا خاندان او سی یو کے سب انسپکٹر شکیل بٹ کو بھی بلاج کے خاندان کے قریب ہونے کی وجہ سے قتل کیس میں نامزد کرنا چاہتا تھا، تاہم پولیس کے اعلیٰ حکام نے اہل خانہ کو باور کرایا کہ شکیل کا قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ او سی یو کے تفتیش کاروں نے برینڈرتھ روڈ کے کئی تاجروں سے بھی ملاقات کی، جہاں جاوید بٹ اپنا کاروبار چلا رہے تھے۔