پاکستان

جولائی کے مقابلے میں اگست کے دوران دہشت گردی میں نمایاں اضافہ

خیبرپختونخوا میں 29، بلوچستان میں 28 اور پنجاب میں دو حملے ہوئے، جن میں 84 افراد جاں بحق اور 166 دیگر زخمی ہوئے تھے۔

ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حملوں کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ اگست 2024 میں ملک بھر میں کل 59 دہشت گرد حملے ہوئے جبکہ پچھلے مہینے ایسے 38 حملے ہوئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کے زیر انتظام سیکیورٹی واقعات کے ڈیجیٹل ڈیٹا بیس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان واقعات میں خیبرپختونخوا میں 29، بلوچستان میں 28 اور پنجاب میں دو حملے شامل ہیں، جن میں 84 افراد جاں بحق اور 166 دیگر زخمی ہوئے تھے۔

بلوچستان میں اگست 2024 کے دوران دہشت گردی کے 28 واقعات ہوئے جن کے نتیجے میں 57 افراد جاں بحق اور 84 افراد زخمی ہوئے، صوبے میں دہشت گردی سے متعلق ان میں سے زیادہ تر اموات 26 اگست کو کالعدم بلوچستان لیبریشن آرمی کے صوبے کے 7 سے زائد اضلاع میں سیکیورٹی فورسز، غیر بلوچ افراد (بنیادی طور پر پنجابیوں) ​​اور قومی انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں ہوئیں۔

خیبرپختونخوا میں 29 دہشت گردانہ حملے ہوئے جن میں 25 افراد جاں بحق اور 80 زخمی ہوئے، مبینہ طور پر یہ حملے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، حافظ گل بہادر گروپ، لشکر اسلام، اداعش خراساں اور چند مقامی طالبان گروپوں نے کیے ہیں۔

دریں اثنا، پنجاب میں 2 مبینہ حملوں میں دو شہری زخمی ہوئے جبکہ 2 حملہ آور بھی مارے گئے، سیکورٹی فورسز اور پولیس کے انسداد دہشت گردی کے محکموں (سی ٹی ڈی) نے اگست میں ملک میں عسکریت پسندوں کے خلاف 12 کارروائیاں کیں جن کی تعداد پچھلے مہینے 11 تھی۔

ان کارروائیوں میں 88 عسکریت پسند ہلاک اور 15 فوجی جوان اور تین پولیس اہلکار شہید ہوئے، رپورٹ کردہ 12 میں سے 8 آپریشن خیبر پختونخواہ میں ہوئے جبکہ 4 بلوچستان میں ہوئے۔

رواں سال اگست میں بلوچستان میں ریکارڈ کیے گئے کل 28 حملوں میں سے 26 کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کیے، جن میں 26 اگست کو گروپ کا وسیع دہشت گردانہ حملہ بھی شامل ہے۔

پی آئی پی ایس نے اپنی ماہانہ سیکیورٹی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسلح گروپ نے اپنی تباہ کن سرگرمیاں تیز کر تے ہوئے بہت زیادہ اثر انداز ہونے والے حملے کیے ہیں اور وہ خواتین خودکش بمباروں کا استعمال کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ 26 اگست کو بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر گروپ نے بلوچستان بھر میں مربوط حملے شروع کر دیے۔

رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ متعدد عسکریت پسندوں کی شمولیت اور جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال بشمول دھماکا خیز مواد سے لیس گاڑیاں بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

اس گروپ نے نئے ہتھکنڈے اپنائے ہیں، جیسے کہ شاہراہوں پر پنجابیوں کو شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال کے ذریعے نشانہ بنانا، یہ ایک ایسی پیشرفت ہے جس سے صوبے اور مرکزی حکومت کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں اور یہ کالعدم تنظیم کے مقاصد میں سے ایک لگتا ہے۔

خود کو بلوچ مفادات کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہوئے بی ایل اے جبری گمشدگیوں اور وسائل کے استحصال کو موزوں بناکر ان کا استعمال کرتی ہے۔

جیسے جیسے بلوچ عوام کا سیاسی عمل سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے، اس گروپ کو مزید حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو بلوچ عوام کے لیے سیاسی اور سماجی گنجائش پیدا کرنا ہوگی۔

مزید برآں، بی ایل اے کی تربیت، ہتھیاروں اور فنڈنگ ​​کے ذرائع کی تحقیقات کی فوری ضرورت ہے، رپورٹ میں مشورہ دیا گیا کہ پاکستان کو افغانستان اور ایران کے ساتھ مل کر مشترکہ انسداد دہشت گردی اور سرحدی سلامتی کی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔

بلوچستان: موسیٰ خیل سمیت مختلف مقامات پر بی ایل اے کی کارروائیوں میں 40 افراد جاں بحق

یورپی یونین کی بلوچستان میں دہشت گرد حملوں کی مذمت

بلوچستان: مختلف علاقوں میں فورسز کا آپریشن، 21 دہشتگرد ہلاک، 14سیکیورٹی اہلکار شہید