نقطہ نظر

شہرِ کراچی: بدانتظامی کی داستان سناتی سڑکیں اور بے ہنگم و جان لیوا ٹریفک

میٹروپولیٹن شہر کی آبادی کے بڑے حصے کے لیے نقل و حمل کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں جہاں ٹریفک قوانین کے بنیادی اصولوں پر بھی عمل در آمد مشکل بن چکا ہے۔

کارساز روڈ پر پیش آنے والا دل سوز واقعہ جس میں دو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، بلاشبہ لاپروا اور غلط ڈرائیونگ کا نتیجہ تھا۔ اسی روز نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں ہٹ اینڈ رن میں موٹر سائیکل سوار کو ہلاک کرنے والے مزدا ٹرک کو روکنے کی کوشش کرنے والا پولیس اہلکار اسی ٹرک کی ٹکر سے جاں بحق ہوا۔ ایک روز بعد 20 اگست کو اسکوٹی سوار نوجوان خاتون اس وقت ڈمپر نے روند ڈالا کہ جب راشد منہاس روڈ پر پڑے گڑھے میں ان کی اسکوٹر سلپ ہوئی۔

یہ تینوں واقعات ایک ایسے عوامی مسائل کا حصہ ہیں کہ جن کا الزام اکثر اوقات سڑکوں پر نظم و ضبط کے فقدان اور محفوظ ڈرائیونگ کے طریقوں کو فروغ دینے میں ٹریفک پولیس اور شہری انتظامیہ کی نااہلی پر لگایا جاتا ہے۔

اس سب میں کافی حد تک ہمارا بوسیدہ انفرااسٹرکچر بھی ذمہ دار ہے جہاں سڑکوں پر گڑھوں کی بھرمار ہے جوکہ موت کے پروانے ثابت ہوتے ہیں اور ایسا صرف آسمان سے برسنے والی بارش سے نہیں ہوتا بلکہ اوور فلو نالے کا پانی جب روڈ اور سڑکوں پر آجاتا ہے تب بھی ٹریفک شدید حد تک متاثر ہوتا ہے۔

ایک جانب روڈ حادثات میں ہلاکتوں کے درست اعداد و شمار موجود نہیں لیکن پاکستان کی سب سے بڑی ایمبولنس اور ریسکیو سروس ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق کراچی میں سال 2022ء میں روڈ حادثات میں 780 افراد جاں بحق ہوئے۔

لیکن امکان یہی ہے کہ اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

2016ء میں بندش سے قبل ایک دہائی تک جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں فعال رہنے والے روڈ ٹریفک انجری ریسرچ سینٹر نے بتایا کہ شہر میں ہر سال ایک ہزار سے زائد لوگ روڈ حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں۔ یہ اعداد کراچی کے کم از کم پانچ بڑے ہسپتالوں کے شعبہِ ایمرجنسی سے جمع کیے گئے ڈیٹا پر مبنی تھے۔

2018ء کی عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں ٹریفک حادثات میں ہر ایک لاکھ کی آبادی میں اوسطاً 14.3 افراد کی اموات ہوتی ہیں۔ گزشتہ سال کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 2 کروڑ 30 لاکھ ہے (جسے شہر کی آبادی کو ’بڑی حد‘ تک کم کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا)، اس تناظر میں ہر سال کراچی میں روڈ حادثات میں کم از کم 2 ہزار 800 افراد اپنی جان سے جاتے ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بے ہنگم ٹریفک میں محض لاپروا ڈرائیونگ مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مجموعی طور پر نظام کی ناکامیوں کا عکاس ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے نظرانداز کیے جانے والے سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے سے لے کر ٹریفک پولیس عملے تک، شہر کی سڑکیں سنگین شہری بدانتظامی کی داستان سناتی ہیں جن کے مہلک نتائج سامنے آتے ہیں۔

منصوبہ بندی لیکن عمل درآمد نہیں

کراچی کی سڑکوں پر حادثات سے اموات کی سب سے بڑی وجہ شہر کی سڑکوں کی موجودہ خستہ حالت ہے جو افراتفری، انتشار اور لاقانونیت کا منظر پیش کرتی ہے۔

میٹروپولیٹن شہر کی آبادی کے بڑے حصے کے لیے نقل و حمل کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں جہاں ٹریفک قوانین کے بنیادی اصولوں پر بھی عمل در آمد مشکل بن چکا ہے۔ موضوع کا جائزہ بہت سے دائمی مسائل پر سے پردہ اٹھاتا ہے جن پر محتاط غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو کراچی کا شہری ٹرانسپورٹ کا نظام سڑکوں کی سہولیات کا مجموعہ تھا جن میں پبلک بسیں اور منی بسوں کے علاوہ ریل سروسز جن میں کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) اور انٹرا سٹی ٹرام سروس بھی شامل تھیں۔ اس پر یقین کرنا اب شاید مشکل ہو لیکن نصف صدی قبل شہرِ کراچی میں سڑکوں اور ریل کا ایک نیٹ ورک بچھا تھا جو مسافروں اور مال بردار گاڑیوں کو تسلی بخش نقل و حمل فراہم کرتا تھا۔

ایسے بہت سے شہری منصوبے ہیں جو نظام کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں۔ ان منصوبوں میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حجم کی مناسبت سے مستقبل کے تقاضوں کو سنبھالنے کے لیے مناسب ضابطے تجویز کیے گئے۔ ان تجاویز میں نجی گاڑیوں میں اضافے پر پابندی بھی شامل تھی جبکہ عوامی بسوں کی تعداد میں متناسب اضافہ، سرکلر ریلوے کا مؤثر استعمال (جو ایک چوتھائی صدی سے غیر فعال ہے) اور اس کے ممکنہ توسیعی بحران، پیرا ٹرانزٹ (انفرادی سفر) موڈز پر مرکوز نظام جیسے مختصر مسافت کے لیے اونٹ گاڑیاں، ٹریفک منیجمنٹ کے طریقوں میں بہتری اور کرایوں کو معقول بنانا شامل تھے۔

لیکن مایوس کن بات یہ ہے کہ ان تحقیقی منصوبوں میں سے بہت کم پر عمل درآمد کیا گیا اور وہ بھی 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں ہوا۔

آئندہ برسوں میں نجی گاڑیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا، سڑکوں کا سائز کم ہوا، پبلک بسوں کی تعداد میں کم تعداد، کے سی آر کی ٹرانسپورٹ میں شمولیت کم ہوئی ہے جبکہ ٹریفک منیجمنٹ کی خامیاں بھی ابھر کر سامنے آئی ہیں۔

ان منصوبوں میں ٹرانسپورٹ کے متوقع مسائل کے حوالے سے حل تجویز کیے گئے تھے۔ ٹرانزٹ وے ڈیولپمنٹ کے لیے بڑی راہداریوں کی توسیع اور قیام، کے سی آر کی بحالی اور بس سروسز کی بہتری اہم سفارشات میں شامل تھیں۔

یہ ریاستی معاملات کے لیے مایوس کُن ہے کہ ان اہم منصوبوں میں شامل سفارشات کو سرکاری سطح پر نہیں سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ چند تجاویز جیسے کہ کراچی ناردرن بائی پاس پر متعلقہ ایجنسیز نے رضاکارانہ طور پر عمل درآمد کیا لیکن پھر بھی جامع سفارشات کے ساتھ ان منصوبوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

ٹریفک میں بار بار رکاوٹیں

یاد رہے کہ کراچی کو ایک مؤثر اور مناسب روڈ نیٹ ورک ورثے میں ملا ہے۔ 1990ء میں سڑکوں کی کُل لمبائی 7 ہزار 400 کلومیٹر تھی۔ اب یہ 10 ہزار سے زائد کلومیٹر ہوچکی ہے جن میں نئی اور موجودہ نیٹ ورک میں متعدد سڑکیں شامل کی گئی ہیں۔ تاہم متعدد وجوہات کی بنا پر ان سڑکوں کو مؤثر انداز میں بروئے کار نہیں لایا جارہا۔

کئی بڑی سڑکوں پر تجاوزات کی بھرمار ہے جس نے ٹریفک کی معمول کی آمدورفت کو متاثر کیا ہے۔ ان رکاوٹوں میں چلتے پھرتے ریڑھی بان اور ہاکرز، اشتہاری ڈھانچے، کھمبے، آٹو ورکشاپس، غیرقانونی پارکنگ، انفرااسٹرکچر سے متعلق منصوبہ بندی کے بغیر بنائی گئیں تنصیبات، پولیس چوکیاں اور اسٹیشنز شامل ہیں۔

سڑکوں کے کناروں پر تین درجن سے زائد پولیس چوکیاں اور دفاتر بنائے گئے ہیں جبکہ عمومی طور پر یہ مقامات راہ گیروں کے لیے توسیعی منصوبوں اور سڑکوں کی توسیعی اسکیموں کا حصہ تھے۔

شام اور رات کے اوقات میں بہت سی بڑی سڑکیں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے پارکنگ مقامات کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ایس ایم توفیق روڈ، یونیورسٹی روڈ کے کچھ حصے، شاہراہ پاکستان اور نیشنل ہائی وے اس کی چند نمایاں مثالیں ہیں۔

شہر سے شہر آمدورفت کرنے والی بسوں نے بھی بہت سی مصروف شاہراہوں اور ملحقہ مقامات کو غیرقانونی طور پر اپنے ٹرمینلز میں تبدیل کردیا ہے۔ صدر، کنٹونمنٹ اسٹیشن، لی مارکیٹ اور پاک کالونی کے اطراف کی سڑکیں اور گلیاں ایسے مقامات ہیں جہاں سے انٹرسٹی بسوں کا آپریشن بلا روک ٹوک جاری ہے۔ لیاقت آباد-کریم آباد فلائی اوور سے متصل ایک بس اڈہ موجود ہے۔

اس کے علاوہ زیرِتعمیر ریڈ لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) راہداری کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ پر سفر شہریوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ نیپا فلائی اوور اور سوک سینٹر دو نمایاں مثالیں ہیں جہاں ٹریفک بی آر ٹی کی وجہ سے شدید متاثر ہوتا ہے۔

بی آر ٹی کی تعمیر کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ پر جگہ جگہ گڑھے موجود ہیں۔ گاڑیاں چلانے والوں کے لیے شاید ہی کوئی سپاٹ سڑک میسر ہو۔

انتظامیہ کو چاہیے کہ زیرِ تعمیر بڑی سڑکوں پر ہموار ٹریفک آپریشنز کو یقینی بنانے کے لیے متبادل ٹریک تیار کیے جائیں۔ ٹھیکیداروں کو مناسب حفاظتی طریقہ کار اپنانے کی ہدایت دی جائے جن میں کرینوں اور ڈمپرز کے محفوظ آپریشن شامل ہیں۔ کام کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے رات کو بجلی کا استعمال کرکے کام جاری رکھنا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ منصوبہ جو 2022ء میں شروع ہوا، تکمیل میں تاخیر کا شکار ہے جبکہ اس کی لاگت میں بھی اضافہ ہو ا ہے۔حالیہ اجلاس میں منصوبے کی حتمی تکمیل کی تاریخ کو 2025ء تک بڑھا دیا گیا۔ لاگت میں 30 فیصد اضافے کی بھی منظوری دی گئی یعنی اس منصوبے کی لاگت اب 79 ارب روپے کے بجائے 103 ارب روپے تک ہوسکتی ہے۔

ٹریفک کی بنیادی وجوہات

سڑکوں کی ٹریفک کو سنبھالنے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ گاڑیوں کی غیر معمولی طور پر بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔

اندازے کے مطابق شہر میں روزانہ 900 سے زائد نجی کاریں اور ایک ہزار 200 موٹر سائیکلیں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف ٹریفک نے بتایا ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر گاڑیوں کی موجودہ تعداد لگ بھگ 60 لاکھ ہے۔

گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک بڑی وجہ بینکوں کی جانب سے آٹوموبائل کی آسان اور لچک دار اقساط کی اسکیمز ہیں۔ لیکن خراب پبلک نقل و حمل کے لیے معقول ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی اور غیرآرام دہ سفر، نجی گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سب سے اہم وجوہات ہیں۔

شہری پبلک ٹرانسپورٹ کے غیر آرام دہ سفر پر نجی گاڑیوں میں ٹریفک جام کی تکالیف، ڈرائیونگ کے تناؤ اور پارکنگ مقامات کی کمی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ موٹرسائیکل سستی سواری ہے جو نوجوانوں اور چھوٹی فیملیز میں کافی مقبول ہے۔

چاہے کسی بھی معیار کے مطابق تجزیہ کیا جائے، شہرِ کراچی کو دستیاب ٹرانسپورٹ کا نظام کسی طرح بھی ہماری ضرورتوں کے مطابق نہیں۔ مختلف مطالعات میں یہی سامنے آتا ہے کہ شہر میں تقریباً 2 ہزار پبلک بسیں اور 4 ہزار 500 منی بسیں اور کوچز ہیں جوکہ 2 کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر کے لیے ناکافی ہیں۔

اگرچہ پیپلز بس سروس اور گرین لائن بی آر ٹی آپریشنز کے ذریعے عوام کو کچھ ریلیف فراہم کیا گیا ہے لیکن شہر کو عام شہریوں کے سفر کی بنیادی سہولیات کو پورا کرنے کے لیے مزید کم از کم 20 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ بسوں کے لیے مختص راستے یا ’بس لین‘ کی کمی کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے مسافر عدم اطمینان کا شکار ہیں۔ سروے میں سامنے آیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سوار زیادہ تر مسافروں کے پاس سواری کا کوئی اور متبادل دستیاب نہیں ہوتا، اس لیے وہ ان میں سفر کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

دوسری جانب آٹو رکشہ بھی اب لمبی مسافت طے کرتے ہیں۔ تاہم صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ شاید حفاظتی وجوہات کی بنا پر انہیں روٹ پرمٹ جاری نہیں کیے لیکن اس کے باوجود لمبی مسافت کے لیے رکشے چلائے جا رہے ہیں۔

بہت سے محلوں اور کئی عام مقامات پر پہنچنے کے لیے رکشہ کا استعمال ہی واحد آپشن ہے۔ اس سواری کو خصوصی طور پر خواتین ترجیح دیتی ہیں جو انہیں محفوظ اور کام پر جانے کے لیے موزوں سمجھتی ہیں۔

’شہری منصوبہ بندی کی قلعی کھل گئی‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت نے نئی سڑکوں ، انڈر پاسز اور اوور پاسز کی تعمیر کی بنا پر اپنی توجہ عوامی نقل و حمل پر مرکوز رکھی ہے۔

ریڈ لائن بی آرٹی زیرِتعمیر ہے جبکہ توقع ہے کہ یلو لائن بی آر ٹی پر کام کا آغاز بھی جلد ہوگا۔ تاہم جس انداز میں ان منصوبوں پر عمل درآمد کیا جارہا ہے وہ شہری منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

عام طور پر ایسے منصوبوں کا کام صرف اس صورت میں کیا جاتا ہے جب متبادل راستے/شاہراہیں تیار ہوں اور شہریوں کو مناسب طریقے سے ان کے حوالے سے آگاہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ تعمیراتی کام دفتری اوقات میں نہیں کیا جاتا بلکہ رات کے اوقات میں کیا جاتا ہے تاکہ ٹریفک کی آمدورفت متاثر نہ ہو۔ اس سلسلے میں جگہ جگہ حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ مسافروں کی جان و مال کو خطرہ نہ ہو۔ ہمارے شہر کے منظر نامے میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔

ٹھیکیدار تعمیراتی کام کرتے وقت کوئی بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اکثر کھودے ہوئے گڑھوں پر بھی نشانی لگانا بھول جاتے ہیں۔ اس طرح کے گڑھے موٹرسائیکلوں اور پیدل چلنے والوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوتے ہیں۔

تمام منصوبوں کو بیک وقت شروع کرنا غیر پیشہ ورانہ اور تکنیکی طور پر غلط ہے۔ عام طور پر اس طرح کے کام کو احتیاط سے منظم انداز میں کیا جاتا ہے تاکہ شہریوں کے مسائل کم ہوں۔

سڑکوں اور انفرااسٹرکچر کے کام، قابل اور تجربہ کار سول، ٹرانسپورٹیشن اور شہری انجینئرز کی نگرانی میں ہونے چاہئیں۔ مقامی محکموں کو بھی اس حوالے سے بااختیار بنانا ہوگا۔ صرف مشیروں پر بھروسہ کرنا کافی نہیں ہے۔ متعلقہ حکام کو کم از کم کاموں کا جائزہ لینے اور نگرانی کرنے کے لیے اپنی محکمہ جاتی صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

غیر مؤثر ٹریفک پولیس عملہ

ٹریفک قوانین، اصولوں اور ضوابط کو نافذ کرنے کا کام ٹریفک پولیس کے ذمہ ہے۔ اس محکمہ کو سنگین مسائل کا سامنا ہے جن میں سے کچھ جیسے کہ ٹریفک کا کم عملہ، دائمی مسائل ہیں۔

کراچی جیسے بڑے اور پیچیدہ شہر کے لیے ٹریفک پولیس عملے کا نیٹ ورک 6 ہزار سے زیادہ نہیں۔ انہیں متنوع کام تفویض کیے گئے ہیں۔ چوراہوں پر ٹریفک کو منظم کرنا، ہنگامی حالات میں سہولیات فراہم کرنا کہ جہاں تعمیر/مرمت کا کام جاری ہے، وی آئی پی اور وی وی آئی پی ڈیوٹیز، ٹریفک مجسٹریٹ اور اسی طرح کے افسران کی مدد، معمول کی گشت، شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر انتظام، جرائم پر قابو پانے، اسنیپ چیکنگ اور ’نو پارکنگ‘ اور ’ٹو-اوے‘ زونز کا نفاذ کچھ معمول کے کام ہیں جو شہر کا ٹریفک پولیس فورس سرانجام دیتی ہے۔

مناسب مواصلاتی آلات، حفاظتی سہولیات اور آلات، تیز رفتار و طاقتور موٹرسائیکلیں/کاریں اور ٹریفک کی نگرانی کے مؤثر نظام (الیکٹرونک ٹریکنگ اور نگرانی کی مدد سے) کی عدم موجودگی کچھ ایسی رکاوٹیں ہیں جنہیں فوری طور پر حل کیا جانا چاہیے۔

ٹریفک پولیس عملے کو بہتر تنخواہیں دی جاسکتی ہیں اور ان کے بچوں کو اچھی رہائش، صحت عامہ اور تعلیم سمیت متعدد فوائد تک رسائی دے کر ان کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ گاڑیوں خاص طور پر موٹر سائیکلوں اور رکشوں کی رانگ سائیڈ جانے کو روکنے کے لیے ٹریفک عملے کو تربیت دینی چاہیے کیونکہ یہ کافی حد تک بڑھ چکا ہے۔

یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ جہاں ٹریفک پولیس والوں کو ان کی سستی اور بدعنوانی پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہیں ان کے اچھے کام اور اقدام کو شاذ و نادر ہی سراہا جاتا ہے۔ بہت سے ٹریفک پولیس اہلکار تیز رفتار گاڑیوں کو روکنے کی کوشش میں اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔

کالے شیشوں اور غیر قانونی نمبر پلیٹوں کے استعمال یا اسلحے کی نمائش کرنے والی گاڑیوں کو اکثر ہائی پروفائل افراد کی شکایت پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ انہیں ٹریفک عملے کی جانب سے روکے جانے پر ’تکلیف‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری پولیس کے پاس تو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی سرکاری اور فوجی گاڑیوں کو چیک کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے۔

اپنے موجودہ حالات میں ٹریفک پولیس کو اپنے تمام فرائض انجام دینے میں انتہائی دشواری ہوتی ہے۔

زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی

ٹریفک میں بہتری اس وقت تک حاصل نہیں کی جاسکتی جب تک مربوط کوششیں بالخصوص زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی سے متعلق کام نہیں کیا جاتا۔ شہر کے لیے ماضی میں بنائے گئے ترقیاتی منصوبوں میں اس عنصر کو مدنظر رکھا گیا۔ ترقیاتی کنٹرول کی ڈھیل اور ڈویلپر-بلڈر-ریاست کے سرکاری گٹھ جوڑ کی وجہ سے زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی ہے۔

زمین کے اثاثوں کو محفوظ بنانے کے بجائے بہت سے ریاستی اداروں نے منصوبہ بندی کے متفقہ شرائط کے بغیر ہی انہیں قبل از وقت فروخت کردیا۔ اس نے غیر معمولی کثافت اور ٹریفک کے حجم کو جنم دیا۔ اس حوالے سے تجزیات سے سامنے آتا ہے کہ کراچی کے جنوبی اور وسطی حصے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور انہیں فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہول سیل مارکیٹوں کی شہری علاقوں سے دور منتقلی، ٹرانسپورٹ ٹرمینلز بنانے، خصوصی بس لین اور سڑکوں کی مستقبل میں توسیع کے لیے مناسب مقامات کا تحفظ، شمال-جنوب اور مشرق-مغرب کی اہم شاہراہوں پر نقل و حرکت کو معقول بنانا، کاروبار، تجارت اور تعلیمی زونز کو تقسیم کرکے سفر میں توازن پیدا کرنا اور مال بردار ٹریفک کے لیے ایک مؤثر بائی پاس موومنٹ سسٹم بنانا، وہ چند اہم منصوبے ہیں جن پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹریفک منیجمنٹ ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے۔ تاہم یقینی طور پر ٹھوس کوششوں کے ذریعے صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ ٹرانسپورٹ کے مؤثر نظام کو نافذ کرنے کے لیے ایک ترغیب پر مبنی سوچ وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے خصوصی آپریشنل ترجیحات تفویض کی گئی ہیں۔

بڑی بسوں سے آغاز کرتے ہوئے نظام کو ایسے بہتر بنایا جانا چاہیے کہ ماس ٹرانزٹ کے کسی بھی مناسب موڈ میں اپ گریڈ کرنے کے لیے مزید تعمیر کی اندرونی گنجائش ہونی چاہیے۔

ایک مربوط نقل و حمل کے منصوبے پر کام کیا جانا چاہیے جس کا مقصد شہر کے افعال کو نئے مقامات پر منتقل کرنا شامل ہے جس سے زیادہ ٹریفک کے اوقات میں شہری ٹریفک کو سنبھالا جاسکے۔

اسی منصوبے کے تحت ناردرن بائی پاس اور لیاری ایکسپریس وے کے اختتامی پوائنٹس کی موجودہ تبدیلیوں کو استعمال میں لایا جانا چاہیے۔ صحت کی ایمرجنسی خدمات اور ٹراما سینٹر کی سہولیات کو ترجیحی طور پر وی وی آئی پی موومنٹ کی راہداریوں سے متبادل راستہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ شاہراہ فیصل کے متوازی راستوں کو بھی عملی طور پر ممکن بنانا چاہیے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ڈاکٹر نعمان احمد

لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔