پاکستان

لاہور: مجوزہ متوازی اتھارٹی کے قیام پر پنجاب پولیس کا شدید تحفظات کا اظہار

انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے چیف سیکریٹری زاہد اختر زمان سے ہنگامی ملاقات میں اس معاملے پر ان کے محکمے کو اعتماد میں نہ لینے پر احتجاج کیا ہے۔

پنجاب پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں نے روایتی پولیس سسٹم کے متوازی ’اعلیٰ اختیارات‘ والی مجوزہ باڈی کے قیام اور اس ادارے میں سیاست دانوں کے کردار پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس بات کی ایک اعلیٰ عہدیدار نےتصدیق کی ہے۔

گزشتہ ہفتے ڈان نے رپورٹ کیا تھا کہ پنجاب کی حکومت پنجاب انفورسمنٹ اور ریگولیشن ایکٹ 2024 کے تحت مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور زمین کے انتظام سے متعلق خصوصی قوانین کے نفاذ کی نگرانی کے لیے ایک صوبائی اتھارٹی قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

مسودہ بل کے مطابق اس میں اتھارٹی کو تین قوانین کے نفاذ کا اختیار حاصل ہوگا، اس میں کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز (پنجاب) ایکٹ 1912، ذخیرہ اندوزی سے متعلق ایکٹ 2020 اور پنجاب پرائس کنٹرول آف ایسنسیشل کموڈٹیز ایکٹ 2024 شامل ہیں۔

بنیادی دھانچہ

اس ادارے میں 18 رکنی ممبران شامل ہوں گے جس میں 10 سینئر بیوروکریٹس، وزیراعلٰی سمیت پنجاب اسمبلی کے 4 ارکان اور اتنے ہی آزاد اراکین شامل ہوں گے، اس فورس کے لیے روایتی پولیس اسٹیشنز سے علیحدہ ’انفورسمنٹ اسٹیشنز‘ بھی بنائے جائیں گے۔

اس اتھارٹی کے افسران کو معائنہ کرنے، گشت کرنے اور کسی بھی گاڑی یا شخص کی تلاشی لینے، اشیا اور سامان ضبط کرنے اور گرفتاری کا اختیار حاصل ہونے سمیت پولیس کے تمام بنیادی اختیارات حاصل ہوں گے۔

ایک اہلکار کے مطابق تازہ ترین پیش رفت میں انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس (آی جی پی ) ڈاکٹر عثمان انور نے چیف سیکریٹری زاہد اختر زمان سے ہنگامی میٹنگ میں اس معاملے پر ان کے محکمے کو اعتماد میں نہ لینے پر احتجاج کیا ہے۔

حکام نے بتایا ہے کہ آئی جی پولیس عثمان انور نے مجوزہ محکم کے لیے 7000 ہزار افراد پر مشتمل نئی فورس بنانے اور پنجاب پولیس کے 40 مطلع شدہ اضلاع میں تعینات کرنے کی تجویز کی سختی سے مخالفت کی ہے۔

حکام کے مطابق پولیس کے اعلیٰ افسران کو بتایا گیا ہے کہ مجوزہ اتھارٹی کے قیام کی تجویز پنجاب پلاننگ اور ڈیولپمنٹ بورڈ کے چیئرمین نبیل احمد اعوان نے دی ہے۔

متعدد خامیاں

پولیس کے محکمے نے صوبائی حکومت کے تجویز کردہ قانون میں موجود کئی خامیوں کی نشاندہی کے لیے ایک تفصیلی پریزنٹیشن تیار کی ہے۔

آئی جی پولیس عثمان انور نے مجوزہ قانون میں کئی بے ضابطگیوں،خامیوں اور اس سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل کی بھی نشاندہی کی ہے۔

ان میں زیادہ تر قوانین کے نفاذ میں تکنیکی خرابیوں، احتساب کے نامناسب طریقہ کار، سیاسی مداخلت، انتظامی اور عدالتی نظام میں ممکنہ کوتاہیوں اور خصوصی پراسیکیوٹرز، عدالتوں اور ہنر مند عملے پر بھاری اخراجات سے متعلق مسائل شامل ہیں۔

پولیس نے اتھارٹی کی مجوزہ تشکیل میں بیوروکریٹس کی بڑی تعداد میں موجودگی اور پاکستان پولیس سروس کے کسی افسر کی شمولیت نہ ہونے پر سوال اٹھائے ہیں، ان کے مطابق ڈسٹرکٹ انفورسمنٹ اور ریگولیٹری بورڈ میں بھی پولیس کا کردار شامل نہیں ہے۔

پولیس نے نشاندہی کی ہےکہ ”طاقتور طبقے“ تمام طے شدہ جرائم جیسے تجاوزات، عوامی پریشانی، قیمتوں پر قابو پانے، ذخیرہ اندوزی وغیرہ میں ملوث ہوتے ہیں، اور ان کے خلاف آپریشن کے دوران اور بعد میں مزاحمت، ہڑتال اور امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے خطرات درپیش ہوتے ہیں۔

تاہم ڈان سے بات کرتے ہوئے پجاب پلاننگ اور ڈیولپمنٹ بورڈ کے چیئرمین نبیل احمد اعوان نے مجوزہ اتھارٹی کے قیام کا مکمل دفاع کیا اور پولیس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ صوبے میں کام کرنے والی پہلی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ، اینٹی کرپشن اور کچھ دوسرے محکموں کو بھی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے، مشتبہ افراد کو حراست میں لینے اور ان سے تفتیشن کر کے انہیں عدالت میں پیش کرنے کے اختیارات حاصل ہیں،مزید کہا کہ پنجاب پولیس دراصل ان تمام محکموں یا ایجنسیوں کو جب اور جہاں ضرورت پڑے مدد فراہم کرتی ہے۔

نبیل اعوان نے بتایا کہ نئی مجوزہ اتھارٹی تقریباً 10 جرائم سے نمٹے گی اور ان میں سے کسی کا تعلق اسٹریٹ کرائم سے نہیں ہوگا، انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ پولیس حکام اتھارٹی کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔’

انہوں نے پولیس کو اسٹریٹ کرائم پر توجہ دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پولیس مجوزہ اتھارٹی کی مخالفت کرنے کے بجائے شہریوں کو ریلیف فراہم کرے جو ان کی اولین ذمہ داری ہے۔