پاکستان

کراچی یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے ہائی کورٹ جج کی ڈگری منسوخ کردی

ڈگری کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری سے متعلق ہے، ڈاکٹر ریاض کا دعویٰ

جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ نے اپنی ان فیئر مینز (یو ایف ایم) کمیٹی کی سفارش پر ایک ہائی کورٹ کے جج کی ڈگری اور انرولمنٹ منسوخ کر دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ اکیڈمک اور سنڈیکیٹ کے رکن ڈاکٹر ریاض احمد کی حراست کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا جنہیں پولیس نے اہم اجلاس میں شرکت سے روکنے کی کوشش کے طور پر اٹھالیا تھا۔

یونیورسٹی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض کو تب ہی رہا کیا گیا جب سنڈیکیٹ نے ڈگری منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔

رہائی کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا کے کچھ ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ ڈگری کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری سے متعلق ہے۔

تاہم، آزادانہ طور پر اس کی تصدیق نہیں ہوسکی کیونکہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی اور یونیورسٹی کا کوئی اہلکار فوری طور پر تبصرہ کے لیے دستیاب نہیں تھے۔

ڈاکٹر ریاض نے دعویٰ کیا کہ وہ ہفتے کو ہونے والے سنڈیکیٹ کے اجلاس میں 40 سال بعد جج کی لا ڈگری سے متعلق کیس سے متعلق ایجنڈا آئٹم پر پہلے ہی اعتراض کر چکے تھے۔

ڈاکٹر ریاض نے دعویٰ کیا کہ انہیں دوپہر ایک بجے کے قریب ٹیپو سلطان روڈ سے اس وقت اٹھایا گیا جب وہ میٹنگ میں شرکت کے لیے یونیورسٹی جا رہے تھے۔

بعد ازاں سنڈیکیٹ کا اجلاس ڈاکٹر ریاض کے بغیر ہوا اور دیگر فیصلوں کے علاوہ ڈگری کی منسوخی کی منظوری دی گئی۔

کے یو کی پریس ریلیز کے مطابق اراکین نے کے یو ان فیئر مینز کمیٹی کی سفارشات کی بھی منظوری دی جنہوں نے غیر اخلاقی اور نازیبا کاموں میں ملوث پائے جانے والے امیدواروں کی ڈگری اور انرولمنٹ کارڈ منسوخ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

تاہم پریس ریلیز میں کسی امیدوار کا نام نہیں بتایا گیا۔

دو ماہ قبل، سوشل میڈیا پر ایک خط گردش کرنے لگا تھا جس میں مبینہ طور پر کے یو کے امتحانات کے کنٹرولر کی طرف سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔

یہ خط مبینہ طور پر جامعہ کراچی کی جانب سے سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 کے تحت انفارمیشن کی درخواست کا جواب تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ امیدوار طارق محمود نے 1991 میں انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔

تاہم، امتیاز احمد نے 1987 میں اسی انرولمنٹ نمبر کے تحت داخلہ لیا، جب کہ ایل ایل بی پارٹ ون کا ٹرانسکرپٹ جسٹس طارق جہانگیری کے نام سے جاری کیا گیا۔

مزید برآں، طارق محمود نے ایل ایل بی پارٹ ون کے لیے انرولمنٹ نمبر 7124 کے تحت داخلہ لیا تھا، خط میں ڈگری کو جعلی قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن اسے غلط قرار دیا گیا، جس میں وضاحت کی گئی کہ یونیورسٹی پورے ڈگری پروگرام کے لیے ایک انرولمنٹ نمبر جاری کرتی ہے جس سے طالب علم کے لیے ایک پروگرام کے لیے دو انرولمنٹ نمبر رکھنا ناممکن ہے۔

واضح رہے کہ طارق محمودجسٹس طارق جہانگیری ان 6 ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس کے خلاف شکایت کی اور پھر انٹر سروسز انٹیلی جنس پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا تھا، شکایت میں داخلی دروازوں اور جج کے بیڈ روم میں جاسوسی کیمروں کا پتا لگانے کے الزامات شامل تھے، یہ معاملہ مبینہ طور پر چیف جسٹس تک پہنچایا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

قبل ازیں ڈاکٹر ریاض نے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ٹیپو سلطان روڈ سے اس وقت لے جایا گیا جب وہ دوپہر ایک بجے کے یو جانے کے لیے اپنی رہائش گاہ سے نکلے تھے، انہیں ابتدائی طور پر جمشید کوارٹرز تھانے لے جایا گیا جہاں سے انہیں بہادر آباد تھانے لایا گیا جہاں شام 6 بجے ان کی اہلیہ صوفیہ وہاں پہنچی اور ان سے ملاقات کی۔

انہوں نے دعوی کیا کہ پولیس نے انہیں بتایا کہ وہ انہیں رہا کر رہے ہیں، لیکن انہیں دوبارہ بریگیڈ پولیس اسٹیشن لے گئی۔

جامعہ کراچی کے ٹیچر کو آٹھ گھنٹے کی ’غیر قانونی‘ حراست کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔

جامعہ کراچی کے پروفیسر چند گھنٹے ’لاپتا‘ رہنے کے بعد گھر پہنچ گئے

چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس، ہائیکورٹ ججوں کے خط پر غور

6 ہائیکورٹ ججز کا جوڈیشل کونسل کو خط، عدالتی امور میں ایگزیکٹو، ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر