پاکستان

پی آئی اے کی نجکاری یکم اکتوبر تک مکمل ہو جائے گی، سیکریٹری نجکاری کمیشن

پی آئی اے کی بڈ کے لیے چھ کمپنیز کو فائنل کیا گیا ہے، جو پی آئی اے خریدے گا اسے 200 ارب روپے کا قرض بھی ادا کرنا ہو گا، قائمہ کمیٹی کا اجلاس

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری میں چیئرمین نجکاری کمیشن نے بتایا کہ انکشاف ہوا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری یکم اکتوبر تک مکمل ہو جائے گی جبکہ نجکاری کے عمل پر گزشتہ پانچ سالوں کے دوران مجموعی طور پر رقم 1992 ملین (ایک ارب 99کروڑ) روپے خرچ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

سینیٹر طلال چوہدری کی زیر صدارت سینیٹ کی نجکاری کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پی آئی اے سمیت اداروں کی نجکاری اور گزشتہ 5 سالوں میں نجکاری کے عمل پر آنے والے اخراجات کا معاملہ زیر بحث آیا۔

دوران اجلاس سیکریٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری یکم اکتوبر تک ہو جائے گی۔

چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ نجکاری کی تاریخ ایک بار پھر آگے چلی گئی ہے؟ کیا یکم اکتوبر سے بھی معاملہ آگے جائے گا؟ جس پر سیکریٹری نے جواب دیا کہ کوشش ہے کہ تاریخ مزید آگے نہ جائے، وزیراعظم نے کہا کہ ہم پہلی اکتوبر سے آگے نہیں لے کر جانا چاہتے۔

انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی بڈ کے لیے چھ کمپنیز کو فائنل کیا گیا ہے، ان کمپنیز میں فلائی جناح، ایئر بلو، عارف حبیب کاپوریشن لمیٹیڈ اور مزید کمپنیاں شامل ہیں۔

سیکریٹری نجکاری کمیشن نے کہا کہ پی آئی اے اس وقت جس طرح چل رہی ہے، سمجھیں نہیں چل رہی، جو پی آئی اے خرید کرے گا اسے پہلے سال پی آئی اے چلانے کے لیے 80 ارب روپے خرچ کرنے ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ جو پی آئی اے خریدے گا اسے 200 ارب روپے کا قرض بھی ادا کرنا ہو گا اور 40 کروڑ روپے جہازوں کی مرمت اور دیگر امور پر صرف ہوں گے جبکہ پی آئی اے کا خسارہ بھی اس وقت 500 ارب تک پہنچ گیا ہے۔

یاد رہے کہ پی آئی اے 2011 میں غیر منافع بخش ہونا شروع ہوئی تھی اور اسے چلانے کے لیے حکومتی سبسڈیز کی ضرورت تھی، 2016 کے آخر تک پی آئی اے پر 3ارب ڈالر کا قرض تھا جو 2018 کے آخر تک بڑھ کر 3.3 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔

سیکریٹری نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ نیشنل پاور پارک کمپنی کو نجکاری لسٹ سے نکال دیا گیا اور نیشنل پاور پارک کمپنی کی نجکاری کے لیے 330 ملین(33کروڑ) روپے ایڈوائزر کو دیے گئے۔

اجلاس میں انکشاف ہوا کہ نجکاری کے عمل پر گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 1405 ملین روپے خرچ کیے گئے جبکہ آپریشنل اخراجات ملا کر مجموعی رقم 1992 ملین رقم بنتی ہے۔

کمیٹی میں انکشاف ہوا کہ متعدد ایسے ادارے جن کی نجکاری نہیں کی گئی ان کے کروڑوں روپے ایڈورٹائرز کو دیے گئے۔

چیئرمین کمیٹی نےسوال کیاکہ اتنا خرچہ کرکے پھر نجکاری کیوں روک دی گئی جس پر کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت نے ہی بعد میں اس کمپنی کی نجکاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو بھی نجکاری کی فہرست سے نکال دیا گیا اور اسٹیل ملز کے لیے تین سالوں میں فنانشل ایڈوائزر کو 127 ملین پیمنٹ ہوئی، گزشتہ سال کابینہ نے اسٹیل ملز کو نجکاری فہرست سے ڈی لسٹ کر دیا تھا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ اسٹیل ملز کی نجکاری نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک بڈر رہ گیا تھا، حکومت کا خیال تھا کہ ایک بڈر کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں رہے گا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ جناح کنونشن سینٹر کو بھی نجکاری کی لسٹ سے نکال دیا گیا، جناح کنونشن سینٹر پر فنانشل ایڈوائزر کو 70لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی لیکن اس کی نجکاری پر سی ڈی اے کے کچھ اعتراضات تھے۔

سیکریٹری نجکاری ڈویژن نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ڈسکوز کی نجکاری کے لیے وزیر اعظم نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، کمیٹی نے چھ مئی کو اپنی سفارشات پیش کی تھیں اور پہلے مرحلے میں تین ڈسکوز کی نجکاری کی تجویز دی گئی جس کے تحت آئیسکو، گیپکو اور فیسکو کی نجکاری ہوگی۔

اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ ڈسکوز کی نجکاری کا پہلا فیز ایک سال کے لیے ہے جبکہ نجکاری کا دوسرا مرحلہ ایک سے تین سال تک ہے۔

سیکریٹری نجکاری ڈویژن نے بتایا کہ 2015 کے بعد پی آئی اے نے 500 ارب کا مزید نقصان کیا جبکہ 2015 میں پی آئی اے کی نجکاری ہو جاتی تو یہ نقصان نہ ہوتا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کو نقصان ہو رہا ہو تو ملازمین کو بھی سوچنا چاہیے، جب ادارے نہ چل سکنے کی وجہ سے بند ہو جائیں گے تو پھر کیا ہو گا۔