امریکی صدر چین کے ساتھ بات چیت کے منتظر ہیں، مشیر امریکی قومی سلامتی
وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ معاون جیک سلیوان نے بیجنگ میں چینی صدر سے غیر معمولی ملاقات کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے شی جن پنگ کے ساتھ بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 2016 کے بعد پہلے امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر چین کا دورہ کرنے والے جیک سلیوان نے بیجنگ میں تین روزہ مذاکرات کے اختتام پر چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی، اس سے قبل انہوں نے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کی۔
ان کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب چین، امریکا کے اتحادیوں جاپان اور فلپائن کے ساتھ سیکیورٹی معاملات میں الجھا ہوا ہے۔
جمعرات کو بیجنگ کے ’گریٹ ہال آف پیپل‘ میں شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے دوران جیک سلیوان نے کہا کہ ’صدر جو بائیڈن آنے والے ہفتوں میں آپ کے ساتھ بات چیت کرنے کے منتظر ہیں۔‘
اس موقع پر ان کا مزید کہنا تھا کہ’امریکی صدر جو بائیڈن ان نتیجہ خیز تعلقات کو ذمہ داری کے ساتھ سنبھالنے کے لیے پر عزم ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ دونوں ملکوں کے درمیان معاملات تنازعات یا تصادم کی طرف نہ جائیں اور جہاں ان کے مفادات ہم آہنگ ہوں وہاں مل کر کام کیا جائے۔’
چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق شی جن پنگ نے جیک سلیوان کو بتایا کہ بڑی تبدیلیوں کے باوجود چین اور امریکا اب بھی اچھے تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
چینی صدر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ چین کا ’چین اور امریکا تعلقات‘ کے ذریعے مستحکم، صحت مند اور پائیدار ترقی کے مقصد کے لیے عزم تبدیل نہیں ہوا ہے۔
چینی نشریاتی ادارے ’سی سی ٹی وی‘ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ امریکا، چین کے ساتھ تعاون کرے گا تاکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتہ کر سکیں۔‘
قبل ازیں بدھ کو جیک سلیوان اور اعلیٰ سفارت کار وانگ کے درمیان آنے والے ہفتوں میں بات چیت کرنے کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
تائیوان کی سرخ لکیر
جمعرات کو جیک سلیوان نے سینٹرل ملٹری کمیشن کے بیجنگ ہیڈ کوارٹر میں چینی فوج کے سینیئر اہلکار ژانگ یوشیا سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے تائیوان اور دیگر حساس امور پر تبادلہ خیال کیا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں فریقین کے تھیٹر کمانڈروں نے مستقبل قریب میں ایک کال کے انعقاد پر اتفاق کیا۔
واشنگٹن کے مطابق جیک سلیوان نے بحیرہ جنوبی چین کے سمندر میں ’فری نیویگیشن‘ کی اہمیت اور آبنائے تائیوان میں استحکام کے معاملے کو بھی اٹھایا جہاں حالیہ مہینوں میں چین اور فلپائن کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھی۔
دوسری جانب ژانگ یوشیا نے خبردار کیا کہ خودمختار جزیرے کا معاملہ چین اور امریکا کے تعلقات میں پہلی سرخ لکیر ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا۔
چینی وزارت دفاع کے مطابق ژانگ یوشیا نے کہا کہ ’چین آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ پرعزم رہا ہے، لیکن وہ آبنائے تائیوان میں آزادی، امن و استحکام ایک دوسرے کے متصادم ہیں۔‘
ژانگ یوشیا نے مزید کہا کہ چین مطالبہ کرتا ہے کہ امریکا، تائیوان کے ساتھ فوجی تعاون بندکرنے، تائیوان کو مسلح کرنے سے گریز کرنے اور تائیوان سے متعلق غلط فہمیوں کو پھیلانے سے باز رہے۔
انہوں نے واشنگٹن سے یہ بھی کہا کہ ’چین کے ساتھ مل کر دونوں افواج کے درمیان رابطے اور تبادلے کو فروغ دیں اور بڑی طاقتوں کی مشترکہ ذمہ داریاں مشترکہ طور پر نبھائیں۔‘
کشیدگی اور غلط فہمیاں دور کرنے کا عزم
چین نے اس سال تائیوان کے صدر ولیم لائی چنگ ٹی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد تائیوان کی علیحدہ شناخت پر زور دینی والی ان کی جماعت کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔
مزید برآں جمعرات کو بات چیت کے دوران جیک سلیوان نے روس کے دفاعی صنعتی اڈے کے لیے چین کی جانب سے حمایت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق جیک سلیوان نے سائبر اسپیس میں غلط فہمیوں اور کشیدگی سے بچنے کی ضرورت اور غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے جاری کوششوں پر بھی زور دیا ہے۔
خیال رہے کہ جیک سلیوان کا یہ دورہ امریکا میں نومبر میں ہونے والے انتخابات سے کچھ عرصے قبل ہو رہا ہے، انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جانب سے صدارتی نمائندہ اور نائب صدر کاملا ہیرس کی کامیابی کی صورت میں ان سے چین کے ساتھ جو بائیڈن کی بات چیت کے ساتھ دباؤ برقرار رکھنے والی پالیسی کو جاری رکھنے کی توقع کی جائے گی۔
ان کے ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ اپنے بیانات میں زیادہ سخت رویہ رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جبکہ ان کے بعض معاونین چین کے ساتھ ایک وسیع تر عالمی تصادم دیکھنا چاہتے ہیں۔