’بلوچستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے ریاستی کمزوری کا پردہ چاک کیا‘
انتشار کا شکار صوبے میں سلسلہ وار دہشت گرد حملوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عسکریت پسندوں نے نہ صرف سیکیورٹی تنصیبات کو نشانہ بنایا بلکہ بسوں سے مسافروں کو اتار کر ان کے شناختی کارڈ چیک کرکے انہیں قتل کیا۔ یہ سُلگتے بلوچستان کی تاریخ کا بدترین خون ریز دن تھا جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔
بلوچستان کے کالعدم علحیدگی پسند گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ ایک جانب جہاں ان پُرتشدد حملوں نے علحیدگی پسندوں کی جانب سے بڑی کارروائیوں کی صلاحیتوں کی نشاندہی کی وہیں دوسری جانب یہ خیبرپختونخوا سے بلوچستان تک پھیلے ہوئے سنگین سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں ریاست کی ناکامی پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان دونوں اسٹریٹجک اہم صوبے اس وقت ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے عسکریت پسندوں کی جانب سے میدان جنگ بن چکے ہیں۔ ایک جانب خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز ان گروپوں سے نبردآزما ہیں جو طالبان کے اصولوں کا نفاذ چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں علحیدگی پسند گروہ اپنی پُرتشدد کارروائیوں کا دائرہ صوبے بھر میں پھیلا رہے ہیں۔ پُرتشدد حملوں کی حالیہ لہر نے صورت حال سے نمٹنے میں ریاست کی کمزوری اور ناکامی کا پردہ چاک کیا۔ جاں بحق سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تعداد نے ظاہر کیا کہ حالات کس قدر سنگین ہوچکے ہیں۔
یہ تو واضح ہے کہ بلوچ علحیدگی پسند دہشت گرد اب اتنے منظم ہوچکے ہیں اور انہیں اتنی حمایت حاصل ہے کہ وہ ایسی کامیاب کارروائیاں کررہے ہیں۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ یہ تمام حملے ایک ایسے خطے میں ہوئے کہ جو بہت طویل عرصے سے سیاسی عدم اطمینان کا مرکز رہا ہے۔
اس سے قبل دو دہائیوں سے وقتاً فوقتاً اس صوبے میں کم شدت کے حملے ہوتے رہے ہیں لیکن اب مقامی لوگوں میں بڑھتے عدم اعتماد کے سبب یہ بغاوت میں تبدیل ہورہا ہے۔ حالیہ پُرتشدد کارروائیاں ایسے وقت میں کی گئیں کہ جب جنوبی بلوچستان میں کیے گئے عوامی مظاہروں کو چند ہفتے ہی گزرے ہیں۔
یہ صرف ٹارگٹڈ دہشت گردانہ حملے نہیں بلکہ شرپسندوں کی سیکیورٹی فورسز سے جھڑپیں بھی ہوئیں اور صوبے کو ملک کے دیگر صوبوں سے منسلک کرنے والی مرکزی شاہراہ کو بھی رکاوٹیں لگا کر بلاک کردیا گیا۔ غیرتصدیق شدہ فوٹیجز میں ہم نے تربت جوکہ صوبے کا دوسرا بڑا شہر ہے، اس کی سڑکوں پر مسلح افراد کو گشت کرتے دیکھا۔ حکومتی اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ متاثرہ علاقوں میں صورت حال مکمل طور پر ہاتھ سے نکل چکی ہے جبکہ انتظامیہ حالات سنبھالنے میں بالکل ناکام ہے۔
سب سے زیادہ تشویش ناک واقعہ بلوچستان کو پنجاب سے جوڑنے والی مرکزی ہائی وے پر مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیاں مار کر قتل کرنا تھا۔ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں لیکن یہ انتہائی گھناؤنا واقعہ تھا۔ عسکریت پسند بڑی تعداد میں غیرمقامی لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں جن میں سے زیادہ تر مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح کے حملوں نے علحیدگی پسند عسکریت پسندی کو ایک ہولناک رخ دیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کوئی بھی ریاست اس طرح کے پُرتشدد حملوں اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو برداشت نہیں کرے گی۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ریاست کے پاس حق ہے کہ وہ اس نوعیت کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہم صوبے میں پائے جانے والے سیاسی اضطراب کی وجوہات پر بھی غور کریں کہ آخر بغاوت میں اضافہ کیوں ہورہا ہے۔ طاقت کے استعمال کے باوجود ریاست صوبے میں بڑھتی بغاوت کو دبانے میں ناکام رہی ہے۔ درحقیقت جمہوری اور معاشی حقوق سے محروم مقامی آبادی کی وجہ سے باغی سوچ کو مزید تقویت ملی ہے۔
مظاہروں کو دبانے میں طاقت کے استعمال اور گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے مقامی آبادی بالخصوص نوجوانوں میں غصے کی آگ کو بھڑکایا ہے اور یوں علحیدگی پسند گروہوں میں بھرتی ہونے والے منحرف افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ رواں ہفتے جو کچھ ہوا اسے ان تمام زاویوں سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ان اندوہناک واقعات کی ذمہ داری بھی ریاست پر عائد ہوتی ہے جو لوگوں کے درست مطالبات کی شنوائی میں بھی ناکام رہی۔
حالیہ دہشت گردانہ حملے نواب اکبر بگٹی کی برسی کے دن رونما ہوئے جوکہ بلوچستان کے سابق گورنر اور وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں جبکہ وہ انتہائی اہم اور بااثر قبائلی رہنما بھی تھے۔ 26 اگست 2006ء کو فوجی آپریشن میں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔ ان کی موت بلوچستان میں بغاوت کی تیسری (اور سب سے بڑی) لہر کا سبب بنی۔
گزشتہ دو لہروں کے برعکس ان باغی کارروائیوں کا مرکز وہ خطہ نہیں جہاں قبائلی عمائدین کا غلبہ ہے۔ علحیدگی پسند گروہوں کے زیادہ تر رہنما متوسط طبقے اور قبائلی رہنماؤں کے برعکس تعلیم یافتہ پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان کے حوالے سے طارق کھوسہ نے لکھا کہ کس طرح ریاستی مظالم نے بولان میڈیکل کالج کے گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر اللہ نذر کو منحرف کیا۔
بلوچ لبریشن فرنٹ کے لیڈر اللہ نذر کو 2005ء میں خفیہ ایجنسیز نے اغوا کیا تھا۔ غیرقانونی حراست میں اس کے بھائی کو ہلاک کردیا گیا۔ دیگر منحرف افراد کی کہانیاں بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ جبری گمشدگیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور تشدد زدہ لاشوں نے متاثرہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کو عسکریت پسندی کی جانب راغب کیا ہے۔ حتیٰ کہ ریاست کی زیادتیوں کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے والوں کو بھی غدار قرار دیا گیا۔
یہ سیکیورٹی معاملات سنبھالنے کا ناقص طریقہ ہے جو صوبے کی موجودہ کشیدہ صورت حال کے پیچھے انتہائی اہم وجہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک ایسی ہی میڈیا بریفنگ کا حصہ تھا جو جنوری 2017ء میں کوئٹہ میں ایک اعلیٰ سیکیورٹی افسر نے دی تھی۔ اس بریفنگ میں انہوں نے ’سب نیشنلزم‘ (بلوچ قوم پرستی) کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔
ان کے مطابق سیکیورٹی اداروں کے لیے سب سے اہم ٹاسک یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو پاکستان کے لیے مخلص، پاکستان کے لیے قوم پرست بنائیں۔ جب میں نے سوال پوچھا کہ بلوچ قوم پرست ہونا کیوں غلط ہے اور اس سے پاکستانی نہ ہونے کا کیا تعلق ہے تو اس حوالے سے مجھے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
اس طرح کی نوآبادیاتی سوچ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ بلوچ قوم پرست رہنماؤں نے مرکزی دھارے کی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ قوم پرست رہنماؤں کو اقتدار سے دور رکھنے کی تمام تر کوششیں کی گئیں۔ جس طرح سیاسی جماعتیں بنائی گئیں اور انہیں صوبے میں اقتدار دیا گیا اس نے جمہوری عمل کا مذاق بنایا۔ 8 فروری کے انتخابات شاید اس کی بدترین مثال ہیں کہ کیسے صوبے میں حکومت بنانے کے لیے نظام کا شیرازہ بکھیرا گیا۔
لیکن متنازع ساکھ رکھنے والی اس حکومت کو عوام کی طاقت نے چیلنج کیا ہے اور یہ ہم نے گوادر اور تربت میں ہونے والے حالیہ مظاہروں اور مارچ کی صورت میں دیکھا۔ یہ مظاہرین علحیدگی پسند یا دہشت گرد نہیں لیکن پھر بھی ریاست نے اپنے اقدامات کے ذریعے انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی۔ کوئی بھی ملک اپنی آبادی کو منحرف کرکے دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکتا۔
اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ان علحیدگی پسندوں کو بیرونی عناصر کی سرپرستی حاصل ہے جس کی بنا پر وہ حملے کرنے میں کامیاب ہیں۔ لیکن بیرونی قوتیں بھی اسی صورت میں فائدہ اٹھاتی ہیں کہ جب خطے کے حالات پہلے سے ہی انتشار کا شکار ہوں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔