پاکستان

سپریم کورٹ کا ڈیتھ سیل میں قیدیوں کی غیر معینہ مدت تک نظر بندی پر اظہار برہمی

چونکہ عدالتوں پر زیادہ بوجھ ہے اس لیے معمول کے مطابق کارروائی مکمل ہونے میں سالوں کی بجائے دہائیاں لگتی ہیں، جسٹس جمال مندوخیل

سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ کسی مجرم کو موت کی سزا سنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیدی کو غیر معینہ مدت کے لیے موت کی کوٹھری میں بند کرکے اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے ایک مذمتی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ڈیتھ سیل میں رہنے والے تمام قیدی نہ صرف اپنے آئینی حقوق سے محروم ہیں بلکہ وہ ذہنی دباؤ میں بھی رہتے ہیں، اس درخواست میں ایک قیدی نے عدالت کے 28 اکتوبر 2015 کے حکم پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔

درخواستگزار غلام شبیر کی نمائندگی سینئر وکیل حسنات احمد خان نے کی، غلام شبیر پہلے ہی 24 سال ڈیتھ سیل میں گزار چکے ہیں،ان کو دسمبر 1994 میں ٹرائل کورٹ نے 1990 میں 2 افراد کو قتل کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی، تاہم اب درخواستگزار نے استدعا کی ہے کہ چونکہ وہ عمر قید کی سزا کاٹ چکے ہیں اس لیے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جائے۔

19 ستمبر 2017 میں ان کی دائر کردہ نظرثانی کی درخواست پر سماعت کرنے والی عدالت عظمٰی نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔

فیصلہ لکھنے والے جسٹس جمال مندوخیل نے آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت سزائے موت پانے والے قیدی کو معاف کرنے کے صدر کے اختیار کے معاملے پر بھی بات کی، تاہم، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ڈیتھ سیلز میں اسیر قیدی اکثر جیل سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے صدر کو رحم کی درخواستیں جمع کراتے ہیں جس میں تاخیر ہوتی ہے۔

مزید برآں، کسی بھی طریقہ کار کی کمی کی وجہ سے رحم کی درخواستوں کا فیصلہ کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں، جسٹس مندوخیل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد میں تاخیر کا یہ ایک بڑا سبب ہے۔

اس لیے رحم کی درخواستیں جمع کرانے اور نمٹانے کا معاملہ بھی غور طلب ہے، انہوں نے متعلقہ حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق پالیسیوں کے مسودے یا قوانین بنانے یا موجودہ قوانین میں ترمیم پر غور کریں تاکہ ڈیتھ سیل میں قیدیوں کی حراست کی مدت کو کم سے کم کیا جا سکے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے مشاہدہ کیا کہ جیل میں طویل حراست، عمر قید کی مدت کے برابر یا اس سے زیادہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (b) کے تحت ایک الگ سزا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سزائے موت کے قیدیوں کو اکثر قید تنہائی اور غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے، حالانکہ ایسا سلوک اصل سزا کا حصہ نہیں ہے۔

24 سال سے ڈیتھ سیل میں قید درخواست گزار

فیصلے میں روشنی ڈالی گئی کہ جب موجودہ اپیل کو عدالت عظمیٰ نے 28 اکتوبر 2015 کو مسترد کر دیا تو درخواست گزار اس وقت تقریباً 25 سال سے قید میں تھا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے اپنی سزائے موت کی توثیق کے باوجود درخواست گزار گزشتہ 9 سالوں سے اپنی سزا پر عمل درآمد کا انتظار کر رہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج تک درخواست گزار معافی حاصل کیے بغیر 34 سال سے جیل میں بند ہے، جن میں سے وہ تقریباً 24 سال تک ڈیتھ سیل میں قید رہا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر معافیوں کو شمار کیا جائے تو ان کی نظربندی تقریباً 40 سال ہو سکتی ہے، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ڈیتھ سیلز میں رہنے والے حالات دوسرے قیدیوں سے بالکل مختلف ہیں۔

اس طرح سزا یافتہ قیدی غیر انسانی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے، ان کی سزا پر عمل درآمد کی تاریخ اور وقت غیر یقینی ہے جس کی وجہ سے خوفناک احساسات پیدا ہوتے ہیں، ان کے اہل خانہ کو بھی قیدی کے ساتھ ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مزید کہا گیا کہ اس سے ان کی ذاتی اقدار اور وقار پر بھی سمجھوتہ ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اعتراف کیا کہ چونکہ عدالتوں پر زیادہ بوجھ ہے اس لیے معمول کے مطابق کارروائی مکمل ہونے میں سالوں کی بجائے دہائیاں لگتی ہیں، اس طرح عدالتی کارروائی کو ختم کرنے اور سزا پر عمل درآمد میں تاخیر سسٹم کی ناکامی کی وجہ سے ہوئی، جو میرے قابو سے باہر ہے۔

درخواست گزار نے طویل مجرمانہ کارروائیوں کی اذیت کا سامنا کیا ہے، لہذا وہ حالات کا شکار ہے اور اس وجہ سے درخواستگزار کو عدالت یا ایگزیکٹو کے عمل کے لیے سزا نہیں دی جا سکتی۔

اختتام پر سپریم کورٹ نے غلام شبیر کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ فیصلے کی نقول سیکریٹری داخلہ، صوبائی چیف سیکریٹریز، اٹارنی جنرل پاکستان اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ اور پراسیکیوٹرز جنرل کو بھجوائی جائیں۔