دنیا

منکی پاکس: وائرس کی نئی قسم توقع سے زیادہ تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، سائنسدانوں کا انتباہ

اکثر ایسے علاقوں میں پھیل رہا ہے جہاں ماہرین کے پاس اس کی مناسب نگرانی کے لیے درکار وسائل اور آلات کی کمی ہے، سائنسدان

ایم پاکس (منکی پاکس) کی نئی قسم کا مطالعہ کرنے والے امریکی، یورپی اور افریقی سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ وائرس کی نئی قسم توقع سے زیادہ جلدی پھیل رہی ہے جو اس کے خلاف اقدامات کو مشکل بنا رہی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق عوامی جمہوریہ کانگو سے پھیلنے والے ایم پاکس وائرس کی نئی قسم کا مطالعہ کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس توقع سے زیادہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے اور اکثر ایسے علاقوں میں پھیل رہا ہے جہاں ماہرین کے پاس اس کی مناسب نگرانی کے لیے درکار وسائل اور آلات کی کمی ہے۔

افریقہ، یورپ اور امریکا میں درجنوں سائنسدانوں نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ اس وائرس کے بارے میں اس کی شدت اور پھیلاؤ سمیت کئی نامعلوم عوامل موجود ہیں جو اس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو مشکل بنا رہے ہیں۔

وائرس کی ایک نئی قسم جسے کلیڈ I بی کے نام سے جانا جاتا ہے اس نے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے نئی ہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ایک بار پھر دنیا بھر میں توجہ حاصل کرلی ہے۔

وائرس کی نئی قسم کلیڈ I بی، جو متاثرہ جانوروں کے ساتھ رابطے کے ذریعے پھیلتی ہے اور کئی دہائیوں سے کانگو میں پائی جاتی ہے، ایم پاکس کی تبدیل شدہ قسم ہے، ایم پاکس عام طور پر فلو جیسی علامات اور پیپ سے بھرے دانے پیدا کرتا ہے اور یہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔

نائیجیریا میں قائم نائیجیریا ڈیلٹا ہسپتال میں متعدی امراض کی ماہر اور ایم پاکس ایمرجنسی کمیٹی کی صدارت کرنے والی ڈاکٹر ڈیمی اوگوئینا نے کہا ہے کہ ’میں افریقہ کے بارے میں فکر مند ہوں اور ہم اس وائرس کو جانچنے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے 2017 میں ایم پاکس وائرس کے جنس کے ذریعے ممکنہ منتقلی کے بارے میں خبردار کیا تھا جو اب وائرس کے پھیلاؤ کا ایک طے شدہ طریقہ ہے۔

ڈاکٹر ڈیمی اوگوئینا نے کہا کہ ہم اس وبا کو بہت اچھی طرح سمجھ نہیں پارہے اور اگر ہم اس وبا کو اچھی طرح سے نہیں سمجھتے تو ہمیں اس وائرس کے پھیلنے کی رفتار، بیماری کی شدت اور بیماری سے لاحق خطرات کے حوالے سے مسائل کو حل کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے اس بات کی فکر ہے کہ وائرس میں تبدیلیاں آرہی ہیں اور یہ نئی اقسام پیدا کر رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ نائجیریا میں وائرس کے کلیڈ II بی کو انسانوں میں مستقل پھیلاؤ کے لیے 5 سال یا اس سے زائد وقت لگا جس کے نتیجے میں 2022 میں یہ دنیا بھر میں پھیل گیا، جبکہ کلیڈ I بی نے یہ سب کچھ ایک سال سے بھی کم عرصے میں کر دکھایا ہے۔

وائرس کی تیزی سے تبدیلی

ایم پاکس، اسمال پاکس کی فیملی سے تعلق رکھنے والا ایک اورتھوپاکس وائرس ہے جسے 50 سال قبل ایک عالمی ویکسین مہم سے ختم کیا گیا تھا۔

کلیڈ I بی انفیکشنز کی جینیاتی ترتیب یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان میں APOBEC3 کے نام سے ایک ویرینٹ پایا جاتا ہے، جو انسانوں میں موافقت کی علامت ہے۔

سیئٹل کے فریڈ ہچیسن کینسر سینٹر میں ایم پاکس اور دیگر وائرسز کے ارتقاء کا مطالعہ کرنے والے ڈاکٹر مگوئل پیریڈس نے کہا ہے کہ وہ وائرس جو ایم پاکس کا سبب بنتا ہے وہ عام طور پر کافی مستحکم اور آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا ہے، لیکن APOBEC3 سے ہونے والی تبدیلیاں وائرس کے ارتقا کو تیز کر سکتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انسانوں سے انسانوں میں پھیلنے والے ایم پاکس کے تمام کیسز میں APOBEC کے ذریعے ہونے والی تبدیلیوں کی تصدیق ہوئی ہے جس کا مطلب ہے یہ ہماری توقعات سے تھوڑا زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

مگوئل پیریڈس اور دوسرے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایم پاکس کی متعدد وباؤں کے ایک وقت میں پھیلاؤ کی وجہ سے اس کے خلاف اقدامات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جنوبی افریقہ میں وبائی امراض کے ماہر اور افریقہ کے ’سی ڈی سی‘ کی ایم پاکس ایڈوائزری کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر سلیم عبدالکریم نے کہا ہے کہ وائرس کے تبدیل شدہ ورژن، کلیڈ I بی اور II بی کو اب بنیادی طور پر جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماری سمجھا جا سکتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق بچے، حاملہ خواتین، اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو ایم پاکس سے سنگین بیماری اور موت کا زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔