بنگلہ دیش سے شرمناک شکست: پاکستان کرکٹ کو آخر یہ کیا ہوگیا؟
راولپنڈی شہر جو اپنی مخصوص شناخت کے باعث ہمیشہ موضوعِ گفتگو رہتا ہے، 25 اگست کے بعد اب پاکستان کی بنگلہ دیش کے ہاتھوں شرمناک شکست سے یادوں کا محور رہے گا۔ ایک ایسی شکست کہ جس نے پاکستان کے سپر اسٹارز کی قلعی کھول دی ہے۔
گزشتہ دنوں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے باعث انتظامی مسائل سے دوچار بنگلہ دیش کے لیے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنا ایک مشکل فیصلہ تھا۔ ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی۔ سابق وزیراعظم کے قریبی ہونے کے باعث کرکٹ بورڈ کے صدر منظرعام سے غائب تھے اور بورڈ عہدیدار بھی کشمکش کا شکار تھے۔ اکثریت کا خیال تھا یہ دورہ منسوخ ہوجائے گا لیکن بنگلہ ٹائیگرز نے آنے کا فیصلہ کیا اور پھر وہ صرف آئے نہیں بلکہ دیکھا اور فتح کرلیا کے مصداق ہوگئے۔
تباہ کُن آغاز
پہلے ٹیسٹ میچ کا اگر پہلے دن سے جائزہ لیا جائے تو پہلے دن پاکستان ٹیم کا پلہ بھاری نظر آرہا تھا لیکن رنز کے انبار لگنے کے باوجود پاکستان کی تین وکٹیں جلدی گر گئی تھیں جنہیں ماہرین نے تباہ کن آغاز قرار دیا۔ ناتجربہ کار اور غیرمعروف فاسٹ باؤلرز کے سامنے اوپنرز کا یوں بکھر جانا عجیب و غریب تھا۔
عبداللہ شفیق، شان مسعود اور بابر اعظم جس انداز میں آؤٹ ہوئے، اس نے شکست کا مسودہ لکھنا شروع کردیا تھا۔ صائم ایوب نے نصف سنچری تو بنائی لیکن وہ اپنی اننگز میں پُراعتماد نظر نہیں آئے۔
میچ کے دوسرے روز پاکستان ٹیم نے روایتی انداز میں بیٹنگ کی اور 448 رنز بنا کر اننگز ڈیکلیئر کی تو خوشامدی صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ٹیسٹ میچ کی چوتھے دن تک خاتمے کی نوید سنا دی تھی۔ یاد رہے کہ یہ وہی صحافی ہیں جو زمبابوے کے خلاف سنچری بنانے پر بابر اعظم کو کنگ بنا دیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی گزشتہ چند سیریز میں کارکردگی دیکھتے ہوئے شاید وہ غلط بھی نہیں تھے مگر وہ پاکستان ٹیم کی روایت بھول گئے جو اکثر بڑا اسکور کرکے خواب غفلت کا شکار ہوجاتی ہے۔
بنگلہ دیش کا جوابی وار
پاکستان کی باؤلنگ جسے زعم تھا کہ اس کے سامنے سب ہیچ ہیں، بنگلہ دیش کے بلے بازوں کو جھکانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ سلیکشن کی غلطیاں تباہ کُن ثابت ہوئیں۔ پاکستان کے چار فاسٹ باؤلرز مشفق الرحیم کے سامنے ناکام نظر آئے۔
میچ میں مجموعی طور پر تین سنچریاں بنیں۔ سعود شکیل، محمد رضوان اور مشفق الرحیم نے سنچریاں بنائیں لیکن مشفق اس لیے نمایاں رہے کیونکہ انہوں نے دنیا کے متاثر کُن فاسٹ باؤلنگ اٹیک کے خلاف سنچری اسکور کی۔ وہ اپنی جگہ انتہائی مضبوط نظر آئے۔ ان کی بیٹنگ کی مستقل مزاجی نے بنگلہ دیش کے باؤلرز کو بھی حوصلہ دیا۔
اس میچ میں بنگلہ دیش کی بیٹنگ کی خاص بات ان کے بلے بازوں کا صبر و تحمل تھا۔ وہ جس انہماک سے کھیل رہے تھے اس نے پاکستانی بلے بازوں کو بہت کچھ سکھایا ہوگا۔ مشفق الرحیم کے ساتھ لٹن داس اور پھر مہدی حسن میراز کی صبر آزما بیٹنگ نے پاکستانی باؤلرز کو تھکا کر رکھ دیا۔
بنگلہ دیش کی 117 رنز کی برتری نے میچ کے فیصلے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اس برتری نے میچ کا توازن ہی نہیں بدلا بلکہ بنگلہ ٹائیگرز میں جیت کی رمق روشن کردی۔ اگرچہ پاکستان کی بیٹنگ دیکھتے ہوئے ایک دن سے کچھ زائد وقت میں کسی شکست کی توقع تو کسی ناقد کو بھی نہ تھی لیکن پاکستان ٹیم اگر توقع کے خلاف نہ جائے تو حیرانی ہوتی ہے۔
چوتھے دن دوسری اننگز میں پچ کسی ہائی وے کا رنگ اختیار کرچکی تھی جہاں گیند سوئنگ ہورہا تھا اور نہ اسپن۔ پچ سپاٹ بے رنگ اور بے کیف تھی۔ پاکستانی باؤلرز پورا دن سر پٹکتے رہے لیکن وہ کچھ کر نہ پائے جس کے بعد سب کو یہی توقع تھی کہ ٹیسٹ ڈرا ہوجائے گا۔
چوتھے دن کے کھیل میں جب پاکستان کی بیٹنگ کو پہلا دھچکا صائم ایوب کے چند ہی رنز پر آؤٹ ہونے سے لگا تو سب کے کان کھڑے ہوگئے کیونکہ جب ایک اچھے آغاز کی اشد ضرورت تھی تو پتے بکھرنے لگے تھے۔
پانچویں دن کا سورج اتنا پُر تمازت نہیں تھا جتنی تپش کپتان شان مسعود کی وکٹ نے ٹیم پر برسائی۔ شان جنہیں ’کنگ آف یارکشائر‘ کہا جاتا ہے۔ پہلی اننگز کی طرح زیادہ دیر پچ پر نہ ٹھہر سکے اور وکٹ گنوا کر چلتے بنے۔
پچ کو الوداع تو بابر اعظم نے بھی ایک اور صفر کے ساتھ کہہ دیا تھا مگر غنیمت جانیے کہ وکٹ کیپر لٹن داس نے آسان کیچ چھوڑ کر بابر کو پچ پر دوسری زندگی دے دی۔ بدقسمتی سے بابر اس دوسرے موقع کو بھی اپنے حق میں سبب شادمانی نہ بناسکے۔ 22 رنز کی اننگز میں چند اچھے شاٹ تو نظر آئے لیکن اعتماد کہیں نظر نہ آیا اور ایک ناتجربہ کار باؤلر ناہید رانا نے انہیں بولڈ کردیا۔
پاکستان کی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ کے اصل معمار عبداللہ شفیق، سعود شکیل اور سلمان آغا تھے۔ دوسری اننگز میں سعود شکیل اور سلمان آغا نے صفر کا کارنامہ انجام دیا جبکہ لاپرواہی سے بیٹنگ کرتے ہوئے عبداللہ شفیق نے شکست کی راہ ہموار کی۔
محمد رضوان نے اگرچہ مزاحمت کی اور عمدہ بیٹنگ کی لیکن دوسری طرف سے بلے بازوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ آخری امید تھے جو 50 رنز بنا کر مہدی میراز کی گیند پر بولڈ ہوئے اور ڈرا کی امید بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
پاکستان کی پوری ٹیم 146 رنز بنا کر بے بسی کی تصویر بن چکی تھی۔ بنگلہ دیش کو محض 30 رنز کا ہدف ملا جو انہوں نے بغیر کسی نقصان کے پورا کیا۔
یہ بنگلہ دیش کی 14 ٹیسٹ میچز میں پہلی فتح ہے۔ اس فتح نے بنگلہ دیش کی پریشان حال عوام کو خوشی کا موقع فراہم کیا جبکہ پاکستان ٹیم مایوسی کے دلدل میں مزید گہرائی تک دھنس چکی ہے۔
ذمہ دار کون؟ کھلاڑی یا سلیکشن کمیٹی؟
ہر شکست کے پیچھے کچھ عوامل ہوتے ہیں جو کسی بھی ٹیم کو اس کی شکست کی طرف لے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی ٹیم تو آئی سی سی رینکنگ میں پاکستان سے بہت نیچے اور کمزور ہے جبکہ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں پاکستان فائنل کی طرف دیکھ رہا ہے تو بنگلہ دیش اپنے وجود کی بقا کی طرف نظریں جمائے ہوئے تھی۔
گزشتہ کئی برسوں سے بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کی کارکردگی تنزلی کا شکار ہے۔ کپتانوں کی تبدیلی اور حکومتی مداخلت نے ٹیم کا شیرازہ بکھیرا۔ دیکھا جائے تو پاکستان ٹیم کے لیے یہ سیریز انتہائی اہم اور پوائنٹس حاصل کرنے کے لیے سنہری موقع ہے۔ پاکستان 7 ٹیسٹ میچز ہوم گروؤنڈ پر کھیلے گا جن میں انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف میچز بھی شامل ہیں۔ پاکستان ہوم سیریز سے اپنی ٹیسٹ پوزیشن مستحکم کرسکتا ہے لیکن پہلے ہی میچ میں بنگلہ دیش جیسی ٹیم سے شکست نے بدترین بنیاد رکھ دی ہے۔
کیا اس شکست کے ذمہ دار کھلاڑی ہیں؟ وہ تو یقینی طور پر ہیں کیونکہ میدان میں وہی کھیلتے ہیں لیکن ان کے ساتھ وہ جہاں دیدہ سلیکٹرز بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نے ایک اسپنر کو ڈراپ کرکے مزید فاسٹ باؤلر کو یہ سمجھ کر شامل کیا کہ بنگلہ دیش کی بیٹنگ اس فاسٹ باؤلنگ کے سامنے ٹِک نہیں سکے گی۔
فاسٹ پچ بنانے کا دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا۔ راولپنڈی کی پچ کو آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں دو سال قبل بدترین پچ کا اعزاز مل چکا ہے۔ اس پچ پر گرم موسم میں فاسٹ پچ بنانے کا دعویٰ مضحکہ خیز تھا۔ اگرچہ آسٹریلیا سے کیوریٹر بلوائے گئے لیکن کیوریٹر اپنی اہلیت تو لاسکتے تھے مگر پچ کے لیے مٹی نہیں لاسکتے۔
دوسری جانب سلیکٹرز کے غلط اور نااہلیت پر مبنی فیصلوں نے ٹیم کی شکست کو مستحکم کردیا۔ پاکستان ٹیم عالمی کرکٹ میں زمبابوے کے ساتھ دوسری ٹیم ہے جو گزشتہ تین سال میں ہوم سیریز میں کوئی میچ نہیں جیت پائی ہے۔
قومی ٹیم تنزلی کا شکار
اگر پاکستان ٹیم کی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو وہ تنزلی کا شکار نظر آتی ہے۔ بیٹنگ میں بابر اعظم سمیت کوئی بھی بلے باز عالمی معیار کی بیٹنگ کرتا نظر نہیں آتا ہے۔ اگرچہ سُست پچز پر سعود شکیل، عبداللہ شفیق، محمد رضوان نے سنچریاں بنا چکے ہیں لیکن آسٹریلیا کے خلاف جب ان کے ہوم گراؤنڈ پر کھیلنا پڑا تو تمام پاکستانی بلے باز سوکھے تنکے ثابت ہوئے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے خلاف راولپنڈی میں پچ حسبِ روایت سست تھی لیکن اس پچ پر ایک ناتجربہ کار فاسٹ باؤلرز کے سامنے جس طرح پاکستانی بیٹنگ ڈھیر ہوئی اس نے ٹیم کی اہلیت پر کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
سعود شکیل جنہوں نے پہلی اننگز میں سنچری بنائی، اپنی حماقت سے دوسری اننگز میں شکیب الحسن کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ صائم ایوب متواتر مواقع ملنے کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ فاسٹ باؤلرز کے خلاف فٹ ورک میں ان کی کمزوری حیرت انگیز ہے۔ عبداللہ شفیق کا ایک غیر ضروری شاٹ ان کی ہی نہیں پوری ٹیم کے لیے تباہی لے کر آیا۔ بابر اعظم کا ایک نو آموز باؤلر کے سامنے غلط شاٹ کھیلنا بہت کچھ کہہ گیا۔
پاکستان ٹیم کی گرتی ہوئی کارکردگی پر انٹرنیشنل کرکٹرز بھی حیران ہیں۔ انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر کیون پیٹرسن نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’پاکستان میں کرکٹ کو کیا ہوگیا ہے، جب میں پی ایس ایل کھیل رہا تھا تو سب کچھ بہت بہتر تھا لیکن اب کیا ہورہا ہے؟‘
باؤلنگ کارگر کیوں نہیں؟
شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ جن کی باؤلنگ کو خوشامدی میڈیا دنیا کا بہترین اٹیک کہتا ہے، وہ اب یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ان دونوں باؤلرز کو کیا ہوگیا ہے۔ پچ پر موجود کچھ اسپاٹ کو بنگلہ دیش کے باؤلرز تو استعمال کرگئے لیکن شاہین آفریدی سمجھ نہ سکے۔ بنگلہ دیش کے شریف اسلام نے زاویے بدل کر باؤلنگ کی اور کامیابی حاصل کی لیکن وہی کام شاہین آفریدی نہ کرسکے۔
نسیم شاہ کی باؤلنگ کا ہدف زیادہ تر آف اسٹمپ سے باہر باؤلنگ رہی جو ٹیسٹ کرکٹ میں ضیاع سمجھی جاتی ہے۔ خرم شہزاد نے البتہ بہتر باؤلنگ کی لیکن وہ بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائے۔ محمد علی کی باؤلنگ میں بھی وہ جان نہ تھی کہ مشفق الرحیم کا دفاع توڑ سکتے۔
مجبوراً پاکستان نے جزوقتی اسپنر سلمان آغا سے سب سے زیادہ باؤلنگ کروائی۔
بورڈ چیئرمین پر بلاجواز تنقید
پاکستان کی اس شکست کے بعد بورڈ چیئرمین پر ہر جانب سے تنقید کیے نشتر برسائے جارہے ہیں اور اسے ایک سیاسی مسئلہ بنایا جارہا ہے۔ حالانکہ بورڈ چیئرمین نے پاکستان کرکٹ میں جمود کو ختم کرکے بہت زیادہ فعالیت پیدا کی ہے۔ پہلی دفعہ پاکستان کی دو ٹیمیں انٹرنیشنل میچز بیک وقت کھیل رہی ہیں۔ کرکٹ کوچنگ کی بہترین سہولیات دی جارہی ہیں، کھلاڑیوں کو زیادہ تنخواہیں مل رہی ہیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں باقاعدگی آگئی ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود اگر ٹیم ٹیسٹ سیریز ہار رہی ہے تو بورڈ نہیں بلکہ کھلاڑیوں کا قصور ہے۔
موجودہ بورڈ بھی کھلاڑیوں کا احتساب کرنے میں کمزور ثابت ہوا ہے۔ لاکھوں روپے ماہانہ لینے کے باوجود کھلاڑیوں کی کارکردگی صفر ہے۔ کھلاڑی اپنی بدترین کارکردگی کے باوجود پریشان ہیں اور نہ بے چین۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بدترین شکستوں نے بھی اس ٹیم کو فکر مند نہیں کر پائیں اور لاابالی پن کا وہی مزاج اب ٹیسٹ سیریز میں بھی نمایاں ہے۔
اگر بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی پاکستان کرکٹ کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے مرحلے کے طور پر بورڈ میں ان کالی بھیڑوں کو فارغ کرنا ہوگا جو ہر چیئرمین کو چند ماہ کے بعد فارغ کروادیتے ہیں لیکن خود برسوں سے اپنی جگہ ہیں اور محض عہدے بدل لیتے ہیں۔ کبھی قانونی مشیر اور کبھی سی ای او بن جاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پلئیر پاور بنواتے ہیں اور ٹیم میں گروپنگ کرواتے ہیں۔
راولپنڈی ٹیسٹ کی شکست اگرچہ بہت کچھ کہہ گئی ہے اور کچھ ایسے مناظر بھی دکھا گئی ہے کہ جن سے اشارہ ملا کہ ٹیم متحد نہیں۔ شان مسعود باحیثیت کپتان اپنے فیصلوں میں بااختیار نہیں ہیں۔ میچ کے بعد اپنی پریس کانفرنس میں وہ لاچار اور بے بس دکھائی دیے۔ ٹیم سلیکشن میں ان کی مرضی شامل ہونا ظاہر ہورہا تھا۔ ٹیم کی کارکردگی پر وہ کچھ کہہ نہ سکے بس معافی مانگتے رہے۔
شان کو سمجھنا ہوگا کہ معافی سے ٹیم نہیں جیت سکتی بلکہ انہیں خود سامنے سے آکر قیادت کرنا ہوگی۔ ان کی اپنی کارکردگی بھی عالمی معیار کی نہیں ہے، انہیں ٹیسٹ کرکٹ کے مزاج کو سمجھتے ہوئے کھیلنا ہوگا۔
لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔