نقطہ نظر

کیا عمران خان کا کامیاب اور مقبول بیانیہ کمزور پڑنے لگا ہے؟

جنرل فیض حمید کی گرفتاری سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس اب اتنا مواد ہے کہ وہ بلآخر عمران خان کے خلاف جوابی بیانیہ تشکیل دے چکے ہیں جو ٹھوس شواہد پر مبنی ہے۔

2014ء کے بعد سے پاکستان کی سیاست کافی حد تک مختلف بیانیوں کی جنگ بن چکی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے کوئی نئی یا عجیب بات نہیں۔ لیکن اس سے قبل یہ جنگیں اتنی شدید نہیں تھیں جتنی کہ یہ اب ہیں۔ اس کی اہم وجہ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔

2011ء سے لے کر آج تک ان جنگوں میں صرف ایک فریق مستقل ہے اور وہ ہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عمران خان۔ زیادہ تر اوقات ان کے حریف مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ہوتے لیکن اپریل 2022ء میں عمران خان کی اقتدار سے بےدخلی کے بعد سے اس جنگ میں ایک اور فریق براہ راست شامل ہوا ہے اور وہ ہے ملٹری اسٹیبلشمنٹ۔

اگرچہ 2011ء سے کم از کم 2021ء تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ تھی لیکن عمران خان نے اس وقت اپنی حکمت عملی کو از سر نو ترتیب دیا جب انہوں نے ’رجیم چینج‘ کے بڑے منصوبے پر ملٹری اسٹبلشمنٹ کو موردِالزام ٹھہرایا جس میں ہم نے دیکھا کہ ان کی حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں ’عدم اعتماد کی تحریک‘ کامیاب ہوئی۔

لیکن اس وقت تک کامیابی سے اپنے بیانیے کو مختلف حربوں سے سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر پھیلانے میں پی ٹی آئی نے مہارت حاصل کرلی تھی۔ 2021ء کے اواخر تک ان تمام حربوں میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ یہ سب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقرری سے پہلے کی بات ہے۔ جب پی ٹی آئی اپنے بیانیے میں جنرل عاصم منیر کو نشانہ بنانے لگی تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ سٹ پٹا گئی وہ بھی اس حقیقت کے باوجود کہ پی ٹی آئی کو حکمت عملی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے جو ’تربیت‘ ملی تھی وہ مبینہ طور پر فوج کے میڈیا ونگ نے ہی فراہم کی تھی۔

پی ٹی آئی کا بیانیہ بہت سے پاکستانیوں بشمول ملٹری، عدلیہ اور میڈیا کے کچھ افراد میں کامیابی سے سرایت کر گیا۔ لیکن وہ کیا بیانیہ تھا جس نے عمران خان کو ’مقبول‘ بنایا اور کچھ حوالوں سے ملک کے شہری اور نیم شہری علاقوں بالخصوص خیبرپختونخوا اور شمالی و وسطی پنجاب کے لوگوں کی نظروں میں انہیں ایک مسیحا بنادیا؟

2011ء سے 2018ء میں وزیراعظم بننے تک عمران خان کا بیانیہ ایک پُرکشش اور ’کرپشن نہ کرنے والی‘ شخصیت کا تھا جنہیں بیرون ملک بھی بطور لیڈر خوب پسند کیا جاتا تھا۔ وہ دنیائے کھیل کے سابق اسٹار تھے جنہوں نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو 1992ء کا ورلڈ کپ جتوایا تھا اور اب وہ بطور سیاست دان ملک کی قیادت کے لیے تیار تھے۔ اس بیانیے میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو مکمل طور پر کرپٹ جماعتوں کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس میں عمران خان کو نیک (لیکن خوش شکل) شخص کے روپ میں دکھایا گیا جو کرپشن کے خلاف ’جہاد‘ کی قیادت کررہے تھے۔

پھر اپنے دورِ حکومت (2018ء سے 2022ء تک) میں جب عمران خان مختلف محاذوں جیسے معیشت اور خارجہ پالیسی میں لڑکھڑانے لگے تو متعلقہ بیانیے میں ’اسلامی‘ پہلوؤں کو بڑے پیمانے پر نمایاں کیا گیا۔ اس کے باوجود اپنی برطرفی تک بیانیہ وہی رہا جو ’ترقی کا بیانیہ‘ کہلایا گیا۔

بلاشبہ پی ٹی آئی نے اپنی ’لالچ‘ کی بنا پر اپنے سیاسی حریفوں کو ملک کے لیے وجودی خطرہ بنانے کا بیانیہ اپنایا لیکن یہ زیادہ تر عمران خان کے ’وژنری‘ ہونے کے گرد گھومتا تھا کہ جن کی پالیسیز سے پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کے طاقتور پاسپورٹس میں شامل ہوسکتا تھا اور پاکستان ایک ایسے ملک میں تبدیل ہوجاتا کہ جہاں متعدد غیرملکی شہری نوکریوں کی غرض سے آتے۔

اس کے علاوہ تخلیقی پروگرامز بھی شروع کیے گئے جیسے مرغیوں کی افزائش کا پروگرام جس کے ذریعے مرغیاں لاتعداد انڈے دینے لگیں گی۔ بیانیہ اس کے گرد بھی گھومتا تھا کہ عمران خان فلسفی و شاعر علامہ محمد اقبال کے کام اور اسلام کے حوالے سے گہری واقفیت رکھتے ہیں جو پاکستان کو حقیقی ’اسلامی فلاحی ریاست‘ بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

ظاہر ہے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سیاسی تجزیہ کار ایس آر شیناو کے مطابق سیاسی بیانیے ضروری نہیں کہ حقیقت پر مبنی ہو بلکہ یہ وسیع پیمانے پر حقیقت کے کچھ خیالات پر بھی مبنی ہوتے ہیں۔ بیانیے کا اعداد و شمار یا تلخ حقائق سے تعلق نہیں بلکہ وہ نظریات اور جذبات پر زیادہ منحصر ہوتے ہیں۔ یہ ایک مخصوص عالمی نظریے کے فریم ورک کے تحت کام کرتا ہے۔ جیسے عالمی نظریہ جتنا وسیع پیمانے پر پھیلا ہوگا، بیانیے جتنا زیادہ مقبول ہوگا اتنے ہی زیادہ لوگ اسے تسلیم کریں گے۔

جب یہ واضح ہوچکا کہ عمران خان کی حکومت سخت حالات سے نبردآزما ہے تو ان کا بیانیہ بھی کمزور پڑنے لگا۔ اسے سہارا دینے کے لیے مزید اسلامی پہلوؤں کو شامل کیا گیا لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ عمران خان کا ترقی کا بیانیہ غیرحقیقی وعدوں پر مبنی تھا اور انہوں نے متوسط طبقے کو خوشحال بنانے کے سنہرے خواب دکھائے تھے جن میں وہ ناکام رہے۔ لیکن عمران خان نے جب اقتدار گنوادیا تو انتہائی دلچسپ پیش رفت ہوئی۔ انہوں نے اپنے بیانیے کو دوبارہ تشکیل دیا۔ اس بار وہ ترقی کے بیانیے کے بجائے سیاسیات کے مطابق، ’زوال کا بیانیہ‘ بنا۔

ماہر سیاسیات رابرٹ رالسٹن اسے ’انحطاط‘ کہتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ زوال عموماً ان عناصر کی وجہ سے آتا ہے جوکہ موجودہ حکومت یا قیادت کے خلاف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپوزیشن بروکرز کہا جاتا ہے جو مختلف گروہوں اور افراد کو متحد کرتے ہیں۔ یہ قوم کو درپیش مسائل پر اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو مورودِالزام ٹھہراتے ہیں۔ رابرٹ رالسٹن یہ بھی کہتے ہیں کہ منفی واقعات یا حالات کی بدولت زوال کا یہ نظریہ مستحکم ہوتا ہے۔

زوال کا یہ بیانیہ بڑے پیمانے پر منفی نظریات کو اکٹھا کرکے بنتا ہے۔ اگرچہ ترقی کا بیانیہ تو ایک بہترین خوشحال مستقبل کا وعدہ کرتا ہے لیکن زوال کا بیانیہ اس کے برخلاف تاریک مستقبل کا اشارہ دیتا ہے۔ اقتدار سے بےدخلی کے بعد عمران خان نے اپنی حکومت کے زوال کی کہانیاں عوامی سطح پر شیئر کیں۔ انہوں نے اس کے ذریعے بتایا کہ ان کی بےدخلی باحیثیت قوم پاکستان کی تباہی کی علامت ہے۔ اس بیانیے میں بعدازاں سری لنکا کی معاشی بدحالی کی مثالیں دی جانے لگیں۔ عمران خان کے خیال میں پاکستان بھی اسی جانب گامزن تھا۔

فروری 2023ء میں جب اٹلی جانے والے بہت سے پاکستانی غیرقانونی تاریک وطن کی کشتی کو حادثہ پیش آیا تو عمران خان نے بتایا کہ معاشی دیوالیہ، انارکی اور سول جنگ کے دہانے پر کھڑے پاکستان سے جانے کے لیے لوگ مضطرب ہیں۔ بدقسمتی سے 1990ء کی دہائی سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں متعدد پاکستانی سمندر کی نذر ہوچکے ہیں لیکن 2023ء کے سانحے کو عمران خان نے اپنے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا اور اسے ایک ایسے واقعے کے طور پر دکھایا کہ جیسے اس کا ان کی برطرفی سے تعلق ہو۔

اس نئے بیانیے نے عمران خان کے مایوس سپورٹرز میں گویا نئی روح پھونک دی۔ اب اس بیانیے کے مطابق عمران خان وہ واحد لیڈر بن گئے جو ملک کو زوال سے بچا سکتے تھے۔ مئی 2023ء میں پی ٹی آئی کارکنان اور رہنما سڑکوں پر آئے اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے لگے۔ اس سلسلے میں گرفتاریاں ہوئیں لیکن متعدد عدالتوں نے تکنیکی وجوہات کی بنا پر ان افراد کو سزا دینے سے انکار کردیا۔

تاہم ایک سال بعد جب ملٹری اسیٹبلشمنٹ نے عمران خان کے حامی اور سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو گرفتار کیا ہے تو اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے پاس اب اتنا مواد ہے کہ وہ بلآخر جوابی بیانیہ تشکیل دے چکے ہیں اور 9 مئی کے فسادات کو مسلح افواج میں بغاوت کو ہوا دینے کی وسیع سازش کے طور پر استعمال کریں گے۔

پی ٹی آئی، عمران خان، چند سابق ملٹری افسران اور عدلیہ، میڈیا میں ان کے مبینہ سہولت کاروں کو فکرمند ہونا چاہیے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بنایا جانے والا یہ مخالف بیانیہ محض تصورات پر نہیں بلکہ مضبوط قانونی شواہد پر مبنی ہے۔ اس جوابی بیانیے میں ان عناصر کو نہ صرف پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے معمار کے طور پر دکھایا گیا ہے بلکہ انہیں ریاست کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔