پاکستان

الیکشن کمیشن نے ایمل ولی خان کو اے این پی کا سربراہ تسلیم کرلیا

13 جنوری کو الیکشن کمیشن نے اے این پی کو اپنے انتخابی نشان لالٹین پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی تھی حالانکہ وہ انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے قانونی تقاضے کو پورا کرنے میں ناکام رہی تھی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سیاسی جماعتوں کی نظرثانی شدہ فہرست میں اسفندیار ولی خان کو عوامی نیشنل پارٹی کا صدر ظاہر کرنے کے ایک دن بعد کمیشن نے اے این پی کے ایک سال کی تاخیر سے ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات کے سرٹیفکیٹ کو نوٹیفائی کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ سیاسی جماعتوں کی ’اپ ڈیٹ شدہ‘ فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے لیکن نوٹیفکیشن میں ایمل ولی خان کو تقریباً ساڑھے تین ماہ بعد پارٹی کا صدر تسلیم کیا گیا ہے۔

انٹرا پارٹی انتخابات کا تاخیر سے اجرا الیکشن کمیشن کی جانب سے قانون کی ایک اور خلاف ورزی ہے، الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 209 (1) کے تحت، ایک سیاسی جماعت کو انٹرا پارٹی انتخابات مکمل ہونے کے بعد سات دنوں کے اندر پارٹی سربراہ کی طرف سے منظور شدہ عہدیدار کے دستخط کے ساتھ ایک سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن کو جمع کرانا ہوتا ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ وفاقی، صوبائی اور مقامی سطحوں پر عہدیداروں کے سیاسی جماعت کے آئین کے مطابق ہوئے ہیں۔

سیکشن 209 کی ذیلی دفعہ 3 میں لکھا ہے کہ کمیشن، ذیلی دفعہ (1) کے تحت سیاسی جماعت کے سرٹیفکیٹ کی وصولی کے سات دنوں کے اندر سرٹیفکیٹ کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے گا۔

13 جنوری کو الیکشن کمیشن نے اے این پی کو اپنے انتخابی نشان لالٹین پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی تھی حالانکہ وہ انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے قانونی تقاضے کو پورا کرنے میں ناکام رہی تھی۔

یہ پیشرفت الیکشن کمیشن کی جانب سے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکامی پر 13 سیاسی جماعتوں کو ڈی لسٹ کرنے کے ایک دن بعد سامنے آئی تھی، اپنے محفوظ کردہ فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے ای سی پی نے اے این پی پر 20,000 روپے کا جرمانہ عائد کرتے ہوئے 8 فروری کے عام انتخابات کے تقریباً تین ماہ بعد 10 مئی تک انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی ہدایت کی تھی۔

اس حکم نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا کہ ای سی پی کس قانون کے تحت انٹرا پارٹی الیکشن کرائے بغیر ایک پارٹی کو اپنے انتخابی نشان پر عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے سکتا ہے؟ ان کا سوال ہے کہ پی ٹی آئی کو رعایت کیوں نہیں ملی؟

الیکشن کمیشن نے اس سے قبل نوٹ کیا تھا کہ اے این پی کے آخری انٹرا پارٹی انتخابات مئی 2019 میں ہوئے تھے، اور چونکہ اس کے آئین کے مطابق عہدے داروں کی مدت چار سال تھی، اس لیے اس کی میعاد 8 ماہ قبل ختم ہو چکی تھی۔

21 دسمبر 2023 کو اے این پی کے انٹرا پارٹی انتخابات پر محفوظ کیا گیا فیصلہ ریٹرننگ افسران کی جانب سے انتخابی امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کرنے کی آخری تاریخ کو سنایا گیا۔

الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 208، 209 اور 210 کے تحت ایک درجن سے زائد سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات حاصل کرنے کے اہل ہونے کے قانونی تقاضے کو پورا کرنے میں ناکامی پر ڈی لسٹ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں ای سی پی کے پانچ رکنی بینچ نے قبل ازیں اے این پی کی انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے لیے چھ ماہ کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کر دی تھی، جس سے یہ اشارہ دیا گیا تھا کہ اے این پی آئندہ عام انتخابات اپنے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن لڑنے کے قابل نہیں رہ سکے گی، ریٹرننگ افسران کو بھیجی گئی انتخابی نشانات کی فہرست میں بھی لالٹین کا نشان شامل نہیں تھا۔