بھارت: ساتھی کے قتل کے بعد لوگوں کی جانیں بچانی والی خواتین ڈاکٹرز خود اپنے لیے فکرمند
28 سالہ بھارتی ڈاکٹر رادھیکا کے لیے لوگوں کی جانیں بچانا بچپن کا خواب تھا لیکن ایک ساتھی ڈاکٹر کے وحشیانہ ریپ اور قتل کے بعد ان کی اپنی حفاظت ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اس ماہ کے اوائل میں کولکتہ کے مغربی علاقے میں ایک سرکاری ہسپتال میں جہاں رادھیکا کام کرتی ہیں، وہاں ایک 31 سالہ ڈاکٹر کی تشدد زدہ خون میں لپٹی لاش ملی تھی جس نے لوگوں کو اشتعال دلایا تھا۔
اس واقعے کے بعد جہاں ایک شخص کو حراست میں لیا گیا ہے وہیں خواتین ڈاکٹرز کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات کی عدم موجودگی پر غم و غصے میں اضافے نے طبی عملے کی ہڑتالوں اور مظاہروں کو جنم دیا ہے۔
آر جی کار میڈیکل کالج اور ہسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کرنے والی رادھیکا کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے دو دن قبل وہ اس ہسپتال میں رات کی ڈیوٹی سر انجام دے رہی تھیں۔
خیال رہے کہ قتل کی جانے والی ڈاکٹر، جن کا باقاعدہ نام نہیں بتایا گیا لیکن مظاہرین انہیں ’ابحیا‘ یا ’نڈر‘ کہہ کر پکار رہے ہیں، ان کی لاش تدریسی ہسپتال کے سیمینار ہال میں ملی تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طویل ڈیوٹی کے دوران وہاں آرام کرنے گئی تھیں۔
رادھیکا جن کا نام کام کی جگہ پر ردعمل کے خوف سے تبدیل کیا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ طویل وقت تک کام کرنا، کھانے یا آرام کے لیے بمشکل وقت ملنے جیسی حالت غیر معمولی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ہم میں سے کوئی بھی ہو سکتا تھا اور اب بھی یہ ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔‘
تشدد کے عام واقعات
ہزاروں بھارتیوں نے احتجاج میں شرکت کی ہے جو نہ صرف خواتین کے خلاف تشدد کے دیرینہ مسئلے، بلکہ انہیں کام کے لیے محفوظ حالات فراہم کرنے میں ناکامی کو اجاگر کر رہے ہیں۔
فلاحی تنظیم دسرا کے مطابق بھارت میں خواتین کی 30 فیصد تعداد ڈاکٹرز جبکہ 80 فیصد نرسوں کے عملے پر مشتمل ہے۔
واضح رہے بھارت میں خواتین ڈاکٹرز پر حملے عام ہیں۔
دوسری طرف، بھارتی سپریم کورٹ نے منگل کو حفاظتی ورکرز کے لیے بہتر حفاظتی سہولیات کے لیے ایک قومی ٹاسک فورس تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس بہیمانہ قتل نے قوم کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔‘
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’طبی اداروں میں طب کے پیشہ ور افراد کے لیے جنسی تشدد اور تشدد دونوں کے خلاف ادارہ جاتی حفاظتی انتظام کی سہولیات کا فقدان ایک سنگین مسئلہ ہے۔‘
اس فیصلے میں سی سی ٹی وی کیمروں اور ہسپتال آنے والے افراد کی اسکریننگ نہ ہونے کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر کے قتل کے خوفناک واقعے نے 2012 میں دہلی کی چلتی ہوئی بس میں نوجوان خاتون کے ساتھ ہونے والی ہولناک اجتماعی زیادتی اور قتل کے واقعے کی یاد تازہ کردی ہے۔
اس سے قبل 2022 میں ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی والے ملک بھارت میں روزانہ کی بنیاد پر ریپ کے 90 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
ناقص سہولیات
رادھیکا کا کہنا ہے کہ تھکان کی وجہ سے ڈاکٹرز کسی کرسی پر یا فرش یا کہی بھی جگہ ملے تو سو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ مکمل طور پر تھک چکے ہوتے ہیں اور ان کے جسم مزید کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔‘
ڈاکٹروں کے آرام کرنے کے لیے ریسٹ رومز موجود ہیں لیکن انہیں مرد اور خواتین دونوں مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں اور کچھ میں تو لاک بھی نہیں ہوتا۔
انہوں نے ایک خوفناک لمحے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ وہ جس کمرے میں آرام کر رہی تھیں وہاں دو آدمی گھس آئے تھے جس کی وجہ سے وہ خوفزدہ ہوگئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ صفائی کی ناقص صورتحال جس میں کبھی کبھار مرد اور خواتین ڈاکٹرز کے لیے ایک باتھ روم ہوتا ہے، حکام کی جانب سے بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکامی کی عکاسی کرتی ہے۔
جنوبی ریاست کیرالا کے شہر تھرووننتھاپورم کی ایک خاتون ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ انہیں اور ان کی ساتھی ڈاکٹر کو ہر روز حراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں زبانی حراسانی سے لے کر جسمانی حراسانی شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ خواتین ڈاکٹرز کو میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے سیلف ڈیفنس کی کلاسز میں شرکت کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔
کیرالا میں مقیم ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ ڈاکٹرز کو فرشتہ یا خدا سمجھتے ہیں، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جرائم سے محفوظ ہیں اور جب ایسا جرم اس جگہ ہوتا ہے جسے ہم سب سے محفوظ سمجھتے ہیں تو ہم سب خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔‘
تاہم جہاں ان کی حفاظت پر سوالات ہیں وہیں رادھیکا اپنے مستقبل کے بارے میں پرعزم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’وہ لڑیں گی اور صحت کے شعبے میں اپنی خدمات جاری رکھیں گی۔‘