عمران خان اور جنرل باجوہ کے بنتے بگڑتے تعلقات کی کہانی
پاکستان کی تاریخ میں ایسی چند ہی مثالیں موجود ہیں کہ جب آرمی چیف کسی تنازع کو جنم دیے بغیر معتبر انداز میں اقتدار سے الگ ہوئے ہوں۔ ایک ایسے ملک میں یہ غیرمتوقع نہیں کہ جہاں فوج سیاسی اقتدار کے کھیل میں گہرائی تک ملوث رہی ہو۔
ریٹائرڈ جنرل قمر جاوید باجوہ کا شمار شاید متنازعہ ترین آرمی چیفس میں ہو لیکن اب جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی کم افسوس ناک نہیں۔
دونوں بڑے سیاسی دھڑے جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنی اپنی حکومتیں گرانے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ دونوں نے ہی ان پر دھوکا دینے کا الزام لگایا۔ دو مدت کے لیے آرمی چیف رہنے والے جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کو تقریباً دو سال ہوچکے ہیں لیکن ان کے دور سے متعلق تنازعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ان کے حامی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی حالیہ گرفتاری کہ جس میں اب انہیں فیلڈ کورٹ مارشل کا سامنا ہے، جنرل باجوہ کو ایک بار پھر شہ سرخی بنادیا ہے۔
ان کی مبینہ سیاسی چالوں کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آئے ہیں جن میں دو وزرائے اعظم کے برطرفی اور حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل باجوہ اور فیض حمید پر 2017ء میں انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے اور انہیں مجرمانہ مقدمات میں سزا سنانے کا الزام لگایا جبکہ دوسری جانب ان کے حریف عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار بھی جنرل باجوہ کو ہی ٹھہراتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان کو 2018ء کے انتخابات میں سیاسی انجینئرنگ کرکے اقتدار میں لانے کا سہرا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے سر دیا جاتا ہے۔ انہیں ہائبرڈ نظام کے موجد کے طور بھی دیکھا گیا جو اہم سیاسی نظام بنا۔ عمران خان اور جنرل باجوہ کی شراکت داری ٹوٹی اور اسی نظام نے مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک بار پھر اقتدار میں واپسی کے راستے کھولے۔
چونکہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیے تھے اس لیے زخمی عمران خان نے شور مچایا کہ انہیں دھوکا دیا گیا۔
نجی ٹی وی چینلز پر انٹرویوز دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پردے کے پیچھے ہونے والی چالبازیوں کے بارے میں کچھ چونکا دینے والے انکشافات کیے کہ جو سیاسی اتحاد کے جوڑ توڑ کا باعث بنیں۔ خواجہ آصف کے مطابق یہ محض فوجی قیادت کی جانب سے غیرجانبداری کا اعلان ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے ساڑھے تین سال پر مشتمل ہائبرڈ حکومت ٹوٹی بلکہ درحقیقت اس وقت اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان روابط تیز تھے جن کی وجہ سے بازی پلٹ گئی۔
سب سے دلچسپ کہانی تو یہ ہے کہ سینیارٹی لسٹ میں جنرل قمر جاوید باجوہ نیچے تھے لیکن اس کے باوجود اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے بطور آرمی چیف ان کا انتخاب کیا۔ میجر جنرل اعجاز امجد جو کہ قمر جاوید باجوہ کے سسر ہیں، ان کی یقین دہانی پر جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنایا گیا۔
یہ تو واضح تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے میرٹ یا سینیئر ہونا معنی نہیں رکھتا۔ لہٰذا نواز شریف جو پہلے ہی پاناما کیس کی زد میں آچکے تھے، اس وقت کی ملٹری قیادت سے بھی ان کے تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔ اس انتہائی اہم عہدے کے لیے انہیں قابلِ اعتماد شخص کی ضرورت تھی۔ ایسے میں جنرل باجوہ بلاشبہ سیاسی انتخاب تھے۔ لیکن جیسا کہ ایک ریٹائرڈ جنرل نے کہا، ایک بار اس طاقتور عہدے کا چارج سنبھال لینے کے بعد کوئی بھی آرمی چیف اپنے ادارے کے علاوہ کسی کا بھی وفادار نہیں رہتا۔ اور یہی ہوا۔
چند ماہ بعد نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ذریعے برطرف کردیا گیا۔ اس حوالے سے یہی مانا جاتا ہے کہ تین بار وزیراعظم بننے والے نواز شریف کے خلاف آنے والے فیصلے کو سیکیورٹی اسٹیلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی۔ مجھے وہ پریس بریفنگ یاد ہے جو جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے چند مہینے بعد دی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب عدالت عظمیٰ سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ نواز شریف کے خلاف مقدمے میں فیصلہ دے گی اور یہ یقینی تھا کہ انہیں سزا ہوگی۔
پریس بریفنگ میں صحافی نے جنرل باجوہ سے پوچھا کہ اگر وزیراعظم کو برطرف کردیا تو ان کے خیال میں کیا ہوگا۔ انہوں نے دھیمے انداز میں جواب دیا، ’کچھ نہیں ہوگا۔ جب ہم نے بھٹو کو پھانسی دی تب بھی کچھ نہیں ہوا تھا‘۔ اس بیان سے طاقت کا غرور واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
نئے آنے والے کو اپنی طاقت واضح کردینے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ جنرل باجوہ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر گھنٹوں بات کرتے حالانکہ انہیں ملک کو درپیش کسی بھی پیچیدہ چیلنج کی واضح سمجھ نہیں تھی۔ پھر 2018ء کے انتخابات آئے۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ تو یہ ٹھان چکی تھی کہ نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں آنے نہیں دیا جائے گا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے بعدازاں مجھ سے کہا کہ عمران خان کی حمایت کرنا تو ادارہ جاتی فیصلہ تھا۔ 2018ء کے انتخابات اور پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے بعد ایک نیا ہائبرڈ نظام وجود میں آیا جسے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ لیکن اس نظام میں کچھ موروثی تضادات تھے جو ابھرنا شروع ہوئے۔ نئے وزیر اعظم نے اپنا مؤقف ثابت کرنے کی کوشش کی اور کچھ ایسے فیصلے کیے جو اسٹیبلشمنٹ کے خیالات سے متصادم تھے۔
اکتوبر 2021ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ میری ایک طویل ملاقات ہوئی جس نے مجھے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے بارے میں کچھ حد تک بصیرت فراہم کی۔ آئی ایس آئی کی کمان میں تبدیلی نے یقینی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا حالانکہ اس وقت تو دونوں کی شرکت داری ٹوٹنے کے آثار تک موجود نہیں تھے۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ وزیراعظم مکمل طور پر فیض حمید پر انحصار کرنے لگے۔ چنانچہ عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تقرری اور عمران خان کا ان پر اندھا اعتماد سب سے اہم نکتہ ثابت ہوا۔ جنرل باجوہ، عمران خان کے خارجہ پالیسی کے متعلق معاملات میں کمزور کوششوں سے بھی ناخوش تھے۔ جبکہ وہ پاکستان کے مفادات کے لیے عمران خان کے برطانیہ سمیت دیگر اہم ممالک کا دورہ کرنے میں ہچکچاہٹ سے بھی نالاں تھے۔
تب ایسا لگ رہا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ روابط بحال کردیے ہیں اور اب خواجہ آصف کے بیانات سے اس گمان کی تصدیق ہورہی ہے۔ جنرل باجوہ نے مجھے شہباز شریف کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ ان کے لیے پسندیدگی محسوس کرنے لگے ہیں۔ تاہم بیک وقت وہ اپوزیشن کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر کرنے کو تضحیک آمیز سمجھتے رہے۔
جنرل باجوہ نے مجھے بتایا کہ جب انہوں نے شہباز شریف سے اپنے اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کے بارے میں پوچھا تو شہباز شریف نے جواب دیا کہ ان کے بچوں سے ’غلطی‘ ہوئی ہے۔
انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن سے اپنی ملاقات کا احوال بھی بتایا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے مطابق جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے ان سے صرف ایک ہی درخواست کی کہ وہ عمران خان کی حکومت کو برطرف کردیں۔
جنرل صاحب کے عظیم عزائم پر کوئی شک نہیں لیکن ان میں سے بہت سے عزائم پورے نہیں ہوپائے۔ وہ چلے گئے لیکن سیاسی اقتدار کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا سلسلہ بدستور برقرار ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ اب کمان کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔