دنیا

افغانستان میں داڑھی نہ رکھنے پر 280 سے زائد سیکیورٹی اہلکار نوکری سے برطرف

داڑھی نہ رکھنے پر گزشتہ ایک سال کے دوران اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کر کے 13 ہزار سے زائد لوگوں کو حراست میں لیا گیا، افغان وزارت

افغان طالبان کی وزارت اخلاقیات نے داڑھی نہ رکھنے پر گزشتہ ایک سال کے دوران سیکیورٹی فورسز کے 280 سے زائد اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کر کے افغانستان میں 13 ہزار سے زائد لوگوں کو بھی حراست میں لے لیا۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق برائی کی روک تھام اور اچھائی کی تبلیغ کی وزارت نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ حراست میں لیے گئے تقریباً نصف افراد کو 24 گھنٹے بعد چھوڑ دیا گیا ہے البتہ زیر حراست افراد کی جنس یا ان کے مبینہ جرائم کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

وزارت میں منصوبہ بندی اور قانون سازی کے ڈائریکٹر محب اللہ مخلص نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکام نے گزشتہ سال 21ہزار 328 موسیقی کے آلات کو تباہ کیا اور ہزاروں کمپیوٹر آپریٹرز کو مارکیٹوں میں غیراخلاقی فلمیں فروخت کرنے سے روکا۔

انہوں نے کہا کہ 281 سیکیورٹی فورسز کے ارکان کی داڑھی نہ رکھنے کی وجہ سے شناخت کی گئی تھی اور انہیں اسلامی قانون کی تشریح کے مطابق برطرف کردیا گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ خواتین اور آزادی اظہار رائے پر پابندی کی وجہ سے افغان طالبان کی وزارت اخلاق کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق وزارت اخلاقیات کے اہلکاروں نے اسلامی لباس کی تشریح پر پورا نہ اترنے پر بعض اوقات خواتین کو چند گھنٹوں کے لیے روک کر انہیں حراست میں رکھا۔

طالبان نے حراست کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قوانین اسلامی قانون اور افغان رسم و رواج کی تشریح پر لاگو ہوتے ہیں۔

وزارت اخلاق نے خواتین کے لباس یا مرد سرپرست کے بغیر ان کے سفر کے حوالے سے اعداد و شمار فراہم نہیں کیے۔

بیان میں کہا گیا کہ اسلامی لباس کے اصولوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے ایک نئے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے جس کی نگرانی قندھار میں مقیم افغان طالبان کے رہنما کررہے ہیں۔

محب اللہ مخلص نے کہا کہ سپریم لیڈر کی رہنمائی کی بنیاد پر خواتین کے حجاب اور اسلامی لباس کا مشاہدہ کرنے کا مسودہ تیار کیا گیا ہے اور اسے منظور کر لیا گیا ہے۔

اخلاقیات کی وزارت نے اس سے قبل کہا تھا کہ خواتین کو اپنے چہرے کو ڈھانپنا چاہیے یا برقع پہننا چاہیے اور اس قانون کے نفاذ کے لیے براہ راست خواتین کے بجائے ان کے خاندان کے مردوں کو نشانہ بنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔