نقطہ نظر

’سوشل میڈیا کو جیل میں تو نہیں ڈالا جاسکتا‘

عون علی کھوسہ جیسے کانٹینٹ کریئیٹرز کی گمشدگی، گرفتاری اور دھمکیوں کے باوجود بھی حکومت انٹرنیٹ پر اختلاف رائے کے جدید طریقوں کو روک نہیں سکتی۔

حال ہی میں جب یہ خبر سامنے آئی کہ عون علی کھوسہ کو اغوا کرلیا گیا ہے تو فوری طور پر میرے ذہن کے پردے پر ان کا چہرہ نہیں آیا۔ لیکن پھر سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر شیئر کی جانے لگیں جنہیں دیکھ کر مجھے ان کا چہرہ جانا پہچانا لگا۔

میرے موبائل فون کی اسکرین پر ان کی بہت سی ویڈیوز گزر چکی ہیں۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے سماجی مسائل سے متعلق ان کی طنز و مزاح کی ویڈیوز دیکھی ہیں جبکہ وہ ان سے واقفیت بھی نہیں رکھتے تھے۔

پھر اقتدار میں بیٹھے ان لوگوں کا ابتدائی طور پر قدرتی ردعمل اسے روکنے کی کوشش ہے۔ یہ حالیہ گرفتاریوں اور گمشدیوں کی یہ سب سے آسان وضاحت ہے۔ تبدیلی سے خوفزدہ لوگ اور کیا کرسکتے ہیں؟ یہ بالکل یہ پوچھنے کے مترادف ہے کہ پوپ نے گلیلیو کو قید میں کیوں ڈالا حالانکہ وہ تو صرف یہ رائے رکھتا تھا کہ سورج ساکت ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔

چونکہ سوشل میڈیا کو تو جیل میں نہیں ڈالا جاسکتا، لہٰذا دوسرا راستہ اس کو دبانا ہے۔ یہ شور مچاتا ہے، بےقابو ہے تو اسے کنٹرول حتیٰ کہ بند کرنا ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو پریشان تو کررہی ہے لیکن شاید اسے روکنے کے لیے اب بہت دیر ہوچکی ہے۔

ایک انداز میں یہ شمسی توانائی سے متعلق حکومت کے حالیہ ردعمل سے مماثل ہے۔ توانائی کی ادائیگیوں، گردشی قرضوں اور بجلی کی آسمان چھوتی قیمتوں کے ساتھ جدوجہد کرتے حکومت نے شمسی توانائی کی تنصیب کی حوصلہ شکنی کے آپشن پر غور کیا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے کیونکہ اس جدید دور کے تقاضوں نے اپنا ایک ماحولیاتی نظام بنالیا ہے اور یہ حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کررہے ہیں۔

اسی طرح کا ایک اور حوصلہ شکن عمل فائر وال کی تنصیب ہے جس نے انٹرنیٹ کو سست کردیا ہے اور لوگوں کے لیے ذریعہ معاش سمجھے جانے والے پلیٹ فارمز کو بھی تباہ کردیا ہے۔ ان پلیٹ فارمز کو نوجوان فری لانسرز، مقامی صنعتیں جیسے نوجوان ڈیلیوری رائڈرز استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خواتین بھی متاثر ہوئی ہیں جو اپنے گھر سے پڑھانے اور دیگر ذرائع معاش کے لیے Skype یا دوسرے پلیٹ فارمز کا استعمال کرتی ہیں۔

یہ پورے ملک کے لیے ایک ایسا دھچکا تھا جس نے حکومت کو اپنے فیصلے کا دفاع کرنے پر مجبور کیا (سب جانتے ہیں کہ یہ کس کے حکم پر ہوا) اور اب وہ وضاحتوں پر وضاحتیں دے رہے ہیں۔ پہلے پہل کو تردید آئی کہ نہیں حکومت نے ایکس پر پابندی نہیں لگائی پھر وزیراطلاعات عطا تارڑ کی جانب سے معروف بیان دیا گیا کہ وہ صرف ایک ہی دیوار سے واقف ہیں اور وہ گریٹ وال آف چائنا ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں ان کی ہم منصب عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ’فائبر‘ وال انسٹال کی جارہی ہے۔

لیکن جب انٹرنیٹ میں موجود حکومت کے لیے ’خلل یا رکاوٹ‘ اتنی بڑھ گئی تو وہ اسے نظرانداز نہیں کر پائے اور تردید کی جگہ وضاحتوں نے لے لی۔ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ نے بتایا کہ ویب منیجمنٹ سسٹم (جسے کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس نے انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے کی وجہ قرار دیا) کو اپ گریڈ کیا گیا ہے اور اتوار کو انہوں نے پریس کانفرنس کرکے سست انٹرنیٹ پر وی پی این کو موردِالزام ٹھہرایا جبکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ لوگ آخر وی پی این استعمال ہی کیوں کررہے ہیں۔

بڑی فرموں سے لے کر ڈیلیوری رائڈرز جیسے عام لوگ جو اپنا گھر چلانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کماتے ہیں، کیا یہ مبہم بیانات اس پوری صنعت کے نقصانات کا ازالہ کرسکتے ہیں؟ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو جلد از جلد فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ تنقید برداشت کرتے ہیں یا معیشت کو یونہی تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ انہیں ان مسائل کے حل تلاش کرنا ہوں گے۔

تاہم اگر درست فیصلہ کر بھی لیا جائے تب بھی عون علی کھوسہ چنانچہ اپنے گھر واپس آچکے ہیں، ان جیسے کانٹینٹ کریئیٹرز سے نمٹنے کا حکومت کا واحد راستہ گمشدگیاں، گرفتاریاں اور دھمکیاں ہوں گی۔ اس کے باوجود بھی تبدیلی یا انٹرنیٹ پر آواز اٹھانے کے جدید طریقوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ یہ نوجوان کہیں نہیں جائیں گے کیونکہ یہ پاکستان کا آج اور کل ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارفہ نور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔