دنیا

بنگلہ دیش: جنگی جرائم کے ٹریبونل کا حسینہ واجد کےخلاف مقدمات کی تحقیقات کا آغاز

حسینہ واجد نے 2010 میں بنگلہ دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل پاکستان کے خلاف آزادی کی جنگ کے دوران ہونے والے مظالم کی تحقیقات کیلئے قائم کیا تھا، جس نے 100 سے زائد سیاسی مخالفین کو موت کی سزا سنائی۔

بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کا قائم کردہ جنگی جرائم کا خصوصی ٹربیونل نے انہیں کے خلاف طلبہ تحریک کے دوران ’اجتماعی قتل‘ کے مقدمات کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، جس کی وجہ سے انہیں ملک سے فرار ہونا پڑا۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ حکمرانی کے خلاف تقریباً ایک ماہ کے دوران طلبہ کی قیادت میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں 450 افراد کی جان گئی، جن میں زیادہ تر پولیس فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔

ان واقعات کی وجہ سے وہ نہ صرف وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہوئیں بلکہ 5 اگست کو اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہوگئیں۔

جنگی جرائم ٹربیونل کے تفتیشی سیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر عطاالرحمٰن نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ مقدمات ’اجتماعی قتل‘ سے متعلق ہیں اور ہم جرائم کے مقامات پر بھی جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد کے خلاف تینوں مقدمات عام لوگوں کی جانب سے لائے گئے تھے جن میں سابق وزیراعظم کے کئی سابق اعلیٰ معاونین کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

یہ مقدمات دارالحکومت ڈھاکہ کے قریبی اضلاع، میرپور، منشی گنج اور ساور میں تشدد سے متعلق ہیں۔

اس کے علاوہ، مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ملک بھر میں مقامی پولیس نے حسینہ واجد کے خلاف کم از کم 15 مقدمات درج کیے ہیں، جن میں حالیہ بدامنی کے واقعات سے پہلے کے کیسز بھی ہیں جو قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق ہیں۔

معزول وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے 2010 میں بنگلہ دیش کا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) پاکستان کے خلاف آزادی کی جنگ کے دوران ہونے والے مظالم کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔

حسینہ واجد کی حکمرانی میں کرائم ٹریبونل نے 100 سے زائد لوگوں کو موت کی سزا سنائی، جن میں ان کے کئی سیاسی مخالفین بھی شامل تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے عالمی کنونشن کی پیروی نہ کرنے پر عدالت کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

یاد رہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام تھا، جس میں ان کے ہزاروں سیاسی مخالفین کا ماورائے عدالت قتل بھی شامل تھا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے جاری ہونے والی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس بات کے مضبوط اشارے ملے ہیں کہ بنگلہ دیشی سیکیورٹی فورسز نے طلبہ تحریک سے نمٹنے کے لیے غیر ضروری طاقت کا استعمال کیا۔

دوسری جانب، بنگلہ دیش کے عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔

واضح رہے کہ ناہد اسلام کی قیادت میں بنگلہ دیش میں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا تھا، طلبہ تحریک کا آغاز جون میں ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں عدالت نے سرکاری ملازمتوں سے متعلق کوٹہ سسٹم کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

بنگلہ دیش میں 50 فی صد سے زائد سرکاری ملازمتیں کوٹہ سسٹم کے تحت دی جاتی تھیں جس میں 30 فی صد کوٹہ 1971 میں بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں حصہ لینے والوں کی اولاد کے لیے مختص تھا۔

کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس نے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر 6 طلبہ کی ہلاکت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا۔

اس دوران، حکومت نے ملک بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی، اور متعدد شہروں میں کرفیو نافذ کردیا، مجموعی طور پر ان مظاہروں میں 300 اموات ہوئیں۔

تاہم، طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے آغاز کے پہلے روز تقریباً 100 اموات ہوئی تھیں جس کے بعد وزیراعظم حسینہ واجد مستعفیٰ ہوکر ڈھاکا میں اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت روانہ ہو گئی تھیں۔

وزیر اعظم حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے بعد محمد یونس کو مظاہروں کی قیادت کرنے والے طلبہ کے مطالبے پر عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، ایوان صدر میں ہونے والی تقریب میں بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے ڈاکٹر محمد یونس سے حلف لیا۔

خیال رہے کہ عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر یونس کا عہدہ چیف ایڈوائز کا ہے جو وزیر اعظم کے برابر ہے۔