پاکستان

190 ملین پاؤنڈز کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ سنانے سے روک دیا

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل ڈویژن بینچ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ درخواست پر سماعت کی۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈز کیس بند کرنے کے قومی احتساب بیورو (نیب) کے پرانے فیصلے کی ریکارڈ فراہمی اور ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو کیس کا حتمی فیصلہ سنانے سے روک دیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل ڈویژن بینچ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور خالد یوسف چوہدری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

سلمان اکرم راجا، عارف علوی، شبلی فراز، علی محمد خان، اعظم خان اور دیگر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

دوران سماعت وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کے خلاف ریفرنس کی سماعت جاری ہے ، 35 گواہ ہو چکے ہیں، آخری گواہ تفتیشی افسر پر جرح جاری ہے ، 8 ملزم ہیں، 6 اشتہاری ہیں اور دو میاں بیوی کے خلاف کیس جاری ہے ، اصل الزام ملک ریاض فیملی کی حد تک ہے کہ وہ اشتہاری ہیں ، الزام یہ ہے پیٹشنر جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے 190 ملین پاؤنڈز کے حوالے سے سہولت فراہم کی ، نیب کا کیس ہے، پیسے اسٹیٹ بینک میں آنے تھے لیکن سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئے ، یہ سیٹلمنٹ ملک ریاض اور این سی اے کے درمیان تھی ، این سی اے نے پیسے دے دیے، آگے وہ جہاں مرضی استعمال کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس زیر سماعت ہے، عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں ہی اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا، نیب نے ابتدائی طور پر 8 ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کیا، عدالت نے دیگر چھ کو عدم پیشی پر اشتہاری قرار دے دیا، عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف ریفرنس زیر سماعت ہے، نیب کے مطابق این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈزز کی رقم ضبط کی۔

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا رقم واپس ملک ریاض اور ان کی فیملی کے اکاؤنٹس میں چلی گئی؟ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ رقم براہ راست سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں بھیجی گئی۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ برطانیہ کی طرف سے رقم ملک ریاض اور فیملی کو واپس کر دی گئی؟ رقم پاکستان کس کی جانب سے پاکستان بھیجی گئی؟ وکیل نے جواب دیا کہ رقم واپس کر دی گئی اور ملک ریاض فیملی کی طرف سے بھیجی گئی، ملک ریاض نے عمران خان کو القادر ٹرسٹ بنانے کے لیے زمین دی۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ یہ یونیورسٹی کہاں ہے؟ وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ یونیورسٹی جہلم کے قریب ہے اور فنکشنل ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا یونیورسٹی فنکشنل ہے؟ سلمان صفدر نے بتایا کہ ریفرنس میں ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس فعال ہے، یہ گھوسٹ پراجیکٹ نہیں ہے، 458 کنال زمین پہلے ملک ریاض کی ملکیت تھی، اب یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام ہے۔

عدالت نے مزید دریافت کیا کہ کیا ٹرسٹ رجسٹرڈ ہے ؟ وکیل نے بتایا کہ جی رجسٹرڈ ٹرسٹ ہے ، عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ میرے پاس کیس ہے یہ رجسٹرڈ تو نہیں ، اس پر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ میں اس حوالے سے معلوم کرکے آئندہ سماعت پر عدالت کو بتاؤں گا۔

اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹرائل کورٹ میں نیب ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ کا ریکارڈ طلب کرنے کی درخواست دی مگر ٹرائل کورٹ نے ریکارڈ طلب کرنے کی ہماری درخواست مسترد کر دی، ٹرائل جج نے درخواست مسترد کرنے کی حیران کُن وجوہات لکھیں، ٹرائل جج نے لکھا کہ تفتیشی افسر اس ریکارڈ کا لکھنے والا یا کسٹوڈین نہیں ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ آپ نے کتنی درخواستیں دائر کیں؟ وکیل نے بتایا کہ صرف یہی ایک درخواست دائر کی ہے۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو 190 ملین پاؤنڈ کیس کا حتمی فیصلہ سنانے سے روکتے ہوئے سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بدھ تک جواب طلب کرلیا۔

ساتھ ہی عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے وکلا ٹرائل کورٹ میں تاخیری حربے استعمال نہ کریں، تاخیری حربے استعمال کیے تو عدالت اپنا حکم نامہ واپس لے لے گی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ اگر تاخیری حربے استعمال کیے تو نہ صرف ہم حکم امتناع واپس لیں گے بلکہ جلد از جلد فیصلہ کرنے کا حکم بھی دیں گے۔

یاد رہے کہ 16 اگست کو سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں 190 ملین روپے کرپشن کیس میں ٹرائل روکنے کے لیے درخواست دائر کی تھی.

عمران خان کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپریل 2020 میں اپنے 343ویں ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں 19 کروڑ پاؤنڈز کرپشن ریفرنس کو بند کرنے کی سفارش کی تھی اور جرح کے دوران تفتیشی افسر نے اجلاس سے متعلق کچھ حقائق کو تسلیم بھی کیا۔

بیرسٹر سلمان صفدر اور ایڈووکیٹ خالد یوسف چوہدری کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم نے کیس کا ریکارڈ طلب کرنے کے لیے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی تھی تاہم جج نے اسے خارج کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ مقدمے میں تفتیشی افسر استغاثہ کے آخری گواہ ہیں، انہوں نے چند ہفتے قبل احتساب عدالت میں گواہی دی تھی تاہم وکیل دفاع مختلف وجوہات کی بنا پر جرح مکمل نہیں کر سکے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مقدمے کا تفتیشی افسر احتساب عدالت میں استغاثہ کے 35 گواہ کے طور پر پیش ہوا اور جرح کے دوران اس نے واضح طور پر 343ویں ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے انعقاد اور مذکورہ ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے ذریعے اس کیس کو بند کرنے کا اعتراف کیا۔

اس میں بتایا گیا کہ مذکورہ میٹنگ کے منٹس نیب کے قبضے میں ہیں اور انہیں دفاع کی حمایت میں اہم ثبوت کے طور پر ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کی ضرورت ہے، درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ نیب کو متعلقہ ریکارڈ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت جاری کی جائے اور ریکارڈ جمع ہونے تک ٹرائل کی کارروائی روک دی جائے۔