پاکستان

سپریم کورٹ : مبارک ثانی کیس میں حکومت پنجاب کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

کچھ سرکردہ علما اور ارکان پارلیمنٹ نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ سے رجوع کرے اور فیصلے کے کچھ حصوں کو اجاگر کرے جو قابل تصحیح ہیں، درخواست

سپریم کورٹ نے مبارک احمد ثانی کیس کے فیصلے میں سے بعض حصوں کو خارج کرنے کی حکومت پنجاب کی درخواست 22 اگست کو سماعت کے لیے مقرر کر دی ۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کو پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل کے ذریعے دائر کی گئی درخواست کو فوری طور پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

درخواست کے مطابق کچھ سرکردہ علما اور ارکان پارلیمنٹ نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ سے رجوع کرے اور فیصلے کے کچھ حصوں کو اجاگر کرے جو قابل تصحیح ہیں۔

تین صفحات پر مشتمل درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیراگراف 49 کو خارج کرنے اور تصحیح کی ضرورت ہے کیونکہ 24 جولائی کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) کا 1985 کا مجیب الرحمن بمقابلہ حکومت پاکستان کا فیصلہ اور سپریم کورٹ کا ظہیر الدین بمقابلہ ریاست کیس میں 1993 کا فیصلہ پابند نظیریں تھیں اور یہ کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے 6 فروری کے فیصلے میں ان پابند نظیروں سے انحراف نہیں کیا ہے۔

درخواست میں وضاحت کی گئی ہے کہ فیصلے کے کچھ دوسرے پیراگراف میں شامل کچھ مشاہدات اور نتائج سپریم کورٹ کی طرف سے بیان کردہ نظیروں کے برعکس ہونے کی وجہ سے ایک حادثاتی غلطی معلوم ہوتے ہیں۔

اس طرح نظرثانی درخواست میں فیصلے کے اس طرح کے حصوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل کی جانب سے درخواست کو 24 جولائی کے فیصلے میں ترمیم کے لیے ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) 1898 کے سیکشن 561 اے کے تحت پیش کیا گیا جو سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر 33 رول 6 اور کوڈ آف سول پروسیجر 1908 کے سیکشن 152 اور 153 کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔

جن علمائے کرام نے وفاقی حکومت سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی درخواست کی ان میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے مفتی محمد تقی عثمانی، دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے مفتی منیب الرحمن، گوجرانوالہ سے مولانا زاہد الراشدی، بھیرہ سے مفتی شیر محمد خان، جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن، جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر پروفیسر ساجد میر، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا انوار الحق، چیف خطیب خیبرپختونخوا مولانا طیب قریشی، جامعہ عروۃ الواسقہ لاہور کے سید جواد علی شاہ، ر ملی یکجہتی کونسل کے صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر اور مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے امیر مولانا محمد اعجاز مصطفی شامل ہیں۔

اپنے 17 اگست کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے سابقہ ​​پنجاب حکومت کی جانب سے مبارک احمد ثانی کیس میں 6 فروری کے اپنے حکم نامے پر نظرثانی کرنے کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ مذہب اور مذہبی آزادی کا دعویٰ کرنے کا حق قانون، اخلاقیات اور امن عامہ سے مشروط ہے جیسا کہ آئین نے یقینی بنایا ہے۔

فیصلے میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل ایمان ہی اسلام کی بنیاد ہے، یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کے بغیر کسی کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ

چیف جسٹس کو دھمکی دینے کا معاملہ:ٹی ایل پی رہنما کا ریمانڈ منظور، مرکزی ملزم تاحال فرار

لاہور: چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکی پر رہنما ٹی ایل پی کےخلاف مقدمہ درج