محکمہ صحت سندھ نے ایم پاکس سے بچاؤ سے متعلق ایڈوائزری جاری کردی
عالمی ادارہ صحت کے بعد محکمہ صحت سندھ نے بھی ایم پاکس سے بچاؤ سے متعلق ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے سندھ کے تمام سرکاری و نجی ہسپتالوں کو وائرس سے متعلق الرٹ کردیا۔
محکمہ صحت سندھ کی ایڈوایزی کے میں ایم پاکس انفیکشن کی جانوروں سے انسانوں یا انسان سے انسان سے منتقلی اور پھیلاؤ کے بارے میں آگاہی دی گئی ہے۔
ایڈوائزری میں منکی پاکس انفیکشن کی علامات اور مرض کی تشخیص کے بعد مریض کو ضروری سامان کے ساتھ قرنطینہ کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اس میں ایم پاکس سے بچاؤ کے لیے ہاتھوں کی صفائی، سینیٹائزر، این 95 ماسک کا استعمال بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ایم پاکس کے حوالے سے ملکی ایئرپورٹس پر کڑی نگرانی جاری
دوسری جانب پاکستان ائیر پورٹس اتھارٹی(پی اے اے) کے کراچی میں واقع ہیڈ آفس کی جانب سے جاری بیا میں کہا گیا کہ منکی پاکس کے حوالے سے ملکی ایئرپورٹس پر کڑی نگرانی جاری ہے، دیگر ائیر پورٹس کی طرح اسلام آباد اور پشاور ائیرپورٹس پر بھی خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
نیان میں کہا گیا کہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ خیبرپختونخوا (کے پی) ڈاکٹر سلیم نے باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ میں قرنطینہ کا دورہ کیا جب کہ ڈائریکٹر ہیلتھ کے پی ڈاکٹر ارشاد اور ائیرپورٹ ہیلتھ افسر اور ڈی ٹی ایم نے بھی انتظامات کا جائزہ لیا۔
پی اے اے نے بتایا کہ ڈی جی ہیلتھ کے پی نے انٹرنیشنل آرائیول لاؤنج میں واقع قرنطینہ کا دورہ کیا اور ایم پاکس کی روک تھام کے لیے انتظامات اور پروٹوکولز کا بھی جائزہ لیا۔
بیان میں کہا گیا کہ پشاور ائیرپورٹ انتظامیہ نے بتایا کہ مونکی پاکس میں مبتلا افراد کو قرنطینہ سے ریسکیو 1122 ایمبولینس کے ذریعے پولیس ہسپتال منتقل کیا جائے گا،آسلام آباد ایئرپورٹ پر بھی بین الاقوامی پروازوں کی آمد کے بعد ڈسں انفیکشن اسپرے کرایا جا رہا ہے۔
عالمی صحت کے عہدیداروں نے جمعرات کو سویڈن میں ایم پاکس وائرس کے ایک نئے انفیکشن کی تصدیق کی تھی اور اسے افریقہ میں پھیلے ہوئے وائرس سے منسلک کردیا تھا، عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس بیماری کو عالمی سطح پر عوامی قرار دینے کے ایک دن بعد براعظم سے باہر اس کے پھیلاؤ کا یہ پہلا کیس تھا۔
جنوری 2023 میں موجودہ وبا شروع ہونے کے بعد کانگو میں 27,000 کیسز اور 1,100 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں، خاص طور پر بچوں میں۔
ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ مونکی پاکس وائرس کی وجہ سے ہونے والی یہ بیماری دردناک خارش، بڑھے ہوئے لمف نوڈس اور بخار کا سبب بن سکتی ہے اور کچھ لوگوں کو بہت شدید بیمار کر سکتی ہے۔
ایم پاکس کی کتنی اقسام ہیں؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایم پاکس کی دو اہم اقسام ہیں: کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو۔
اس سے پہلے 2022 میں اعلان کردہ ایم پاکس پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کلیڈ ٹو کی وجہ سے تھی۔
یہ وائرس تقریباً 100 ممالک میں پھیلا جہاں عام طور پریہ وائرس نہیں ہوتے جن میں یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ویکسین دے کر اس پر قابو پا لیا گیا تھا تاہم اس بار یہ کہیں زیادہ مہلک کلیڈ ون ہے۔
پچھلے سال ستمبر کے آس پاس وائرس میں تبدیلی آئی تھی، تغیرات کے نتیجے میں کلیڈ ون بی نامی ایک قسم سامنے آئی جو اس کے بعد تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اس نئی قسم کو سائنسدانوں نے ’اب تک کی سب سے خطرناک‘ قسم قرار دیا ہے۔
افریقہ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ سنہ 2024 کے آغاز سے جولائی کے آخر تک 14,500 سے زائد ایم پاکس انفیکشن اور 450 سے زائد اموات ہوئیں۔
یہ 2023 کے اسی عرصے کے مقابلے میں انفیکشن میں 160 فیصد اضافہ اور اموات میں 19 فیصد اضافہ ہے۔
اگرچہ ایم پوکس کے 96 فیصد کیسز ڈی آر کانگو میں ہیں لیکن یہ بیماری بہت سے ہمسایہ ممالک جیسے برونڈی، کینیا، روانڈا اور یوگینڈا میں پھیل چکی ہے جہاں یہ عام نہیں۔
ڈی آر کانگو میں ایم پاکس ویکسین اور علاج تک رسائی بہت کم ہے اور صحت کے حکام اس بیماری کے پھیلاؤ کے بارے میں فکرمند ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی قسم زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے جس سے بچوں اور بالغوں میں زیادہ سنگین بیماریاں اور اموات ہو سکتی ہیں۔
ایم پاکس کی علامات کیا ہیں؟
ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر درد اور پٹھوں میں درد شامل ہیں۔
بخار ٹوٹنے کے بعد دانے پڑ سکتے ہیں جو اکثر چہرے سے شروع ہو کر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں جن میں عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کے تلوے شامل ہوتے ہیں۔
دانے، جو انتہائی کھجلی والے یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔
یہ کھجلی تبدیل ہوتے ہوئے مختلف مراحل سے گزرتی ہے اور آخر کار خارش کی شکل اختیار کر جاتی ہے جو بعد میں زحموں کا سبب بن سکتی ہے۔
انفیکشن عام طور پر خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور 14 سے 21 دن کے درمیان رہتا ہے۔
سنگین معاملات میں زخم پورے جسم پر ہو سکتے ہیں خاص طور پر منہ ، آنکھوں اور جنسی اعضا پر بھی۔
یہ مرض کیسے پھیلتا ہے؟
ایم پاکس کسی متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے کے ذریعے دوسرے افراد میں پھیلتا ہے, ان رابطوں میں جنسی تعلقات، جلد سے جلد کے رابطے اور کسی دوسرے شخص کے قریب بیٹھ کر بات کرنا یا سانس لینا بھی شامل ہے, یہ وائرس زخمی جلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتا ہے, یہ وائرس سے آلودہ ہونے والی چیزوں کو چھونے سے بھی پھیل سکتا ہے جیسے بستر، کپڑے اور تولیہ۔
بندروں، چوہوں اور گلہری جیسے متاثرہ جانوروں کے ساتھ قریبی رابطہ ایک اور وجہ ہے,2022 میں عالمی وبا کے دوران یہ وائرس زیادہ تر جنسی رابطے کے ذریعے پھیلا تھا, کانگو سے موجودہ وبا جنسی رابطے کی وجہ سے پھیل رہی ہے لیکن یہ دیگر برادریوں میں بھی پائی گئی ہے۔
اس کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ایم پاکس کے پھیلاؤ کو انفیکشن روک کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور یسا کرنے کا بہترین طریقہ ویکسین کا استعمال ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں دوا ساز کمپنیوں سے کہا ہے کہ جن ممالک میں اشد ضرورت ہے وہ اپنی ایم پوکس ویکسین کو ہنگامی استعمال کے لیے پیش کریں، بے شک یہ ویکسین باضابطہ طور پر منظور شدہ نہ بھی ہو۔
اب جبکہ صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا گیا ہے، امید ہے کہ حکومتیں اپنے ردعمل کو بہتر طریقے سے مربوط کر کے ممکنہ طور پر متاثرہ علاقوں میں طبی سامان اور امداد پہنچانے میں تیزی لائیں گی۔