پاکستان

کراچی میں انسداد پولیو مہم کے پہلے ہی دن 27 فیصد شہریوں کا انکار

پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کی بڑی وجہ والدین کو نئے طریقے کار سے متعلق آگاہی نہ ہونا ہے، ماہرین

کراچی میں انسداد پولیو مہم کے دوران 85 یونین کمیٹیوں (یو سیز) میں سے 40 میں 27 فیصد والدین نے پولیو کے قطرے پلوانے انکار کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) کی جانب سے پولیو کے حوالے سے صحافیوں کے لیے سیشن منعقد کیا تھا، جہاں اس بات کی جانب توجہ دلائی گئی کہ افغانستان سے یہاں آنے والے لوگوں کے خطرے سے زیادہ اندرونی چیلنجز کہیں زیادہ ہیں۔

ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) کے کوآرڈینیٹر ارشاد سدھار کا کہنا تھا کہ وائرس کی ماحول میں موجودگی کی کئی وجوہات ہیں، حالیہ انسداد پولیو مہم کے پہلے ہی دن 27 فیصد نے قطرے پلوانے سے انکار کیا، جہاں 40 یونین کمیٹیوں میں 62 فیصد کامیابی ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ 48 فیصد بچوں میں سے 18 فیصد گھروں پر موجود نہیں تھے۔

پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کی بڑی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ والدین کو ویکسینیشن کے نئے طریقے کار سے متعلق آگاہی نہیں ہے، جبکہ آپریشنل چیلنجز کا بھی سامنا ہے، تاہم ارشاد سدھار کی جانب سے امید ظاہر کی جا رہی ہے، 85 خطرے کی حامل یوسیز میں 15 سے 25 اگست کے دوران بہتر صورتحال متوقع ہیں۔

ماہرین کے مطابق کراچی میں بڑے پیمانے جاری یہ پہلی پولیو مہم ہے، جس میں نیڈل فری جیٹ انجیکٹرز کا استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے قبل یہ طریقہ کار کراچی میں بڑے پیمانے پر 2019 میں استعمال کیا گیا تھا۔

کوآرڈینیٹر ارشاد سدھار نے بتایا کہ فریکشنل ڈوسز آف ان ایکٹیویٹڈ پولیو وائرس ویکسین (ایف آئی پی وی) سنگل ڈوز ہے، جو کہ پولیو کے پھیلنے کے حوالے سے استعمال کیا جا چکا ہے اور کئی ممالک ایف آئی پی وی کے دو ڈوسز اپنے امیونیزیشن پروگرامز میں استعمال کر رہی ہیں۔

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر خالد شفیع نے بتایا کہ ایک ایف آئی پی وی کا سنگل ڈوز زیادہ پُر اثر ہوتا ہے، جبکہ دو ڈوز میں اس سے بھی زیادہ اثر دیکھا گیا ہے، اگر ایف آئی پی وی پولیو کے قطروں کے ساتھ پلایا جائے تو اس سے آنتوں کی قوت مدافعت کو بہتر بنانے اور سماج میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ڈاکٹر خالد شفیع اور آغا خان یونی ورسٹی کے سینئر پیڈیاٹریشن ڈاکٹر علی فیصل سلیم کی جانب سے ملک میں پولیو کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جہاں رواں سال 14 مصدقہ کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ ماحولیاتی نمونوں میں بھی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔