مقبوضہ کشمیر میں ایک دہائی بعد انتخابات کا اعلان
بھارتی الیکشن کمیشن نے مقبوضہ کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کردیا ہے، مقبوضہ وادی میں انتخابات 18 ستمبر سے یکم اکتوبر تک ہونے جا رہے ہیں، 2014 میں بھی وادی میں انتخابات ہوئے تھے، تاہم 2019 میں وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے یہ پہلی اہم انتخابی مشق ہے۔
بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق ریاست ہریانہ میں بھی الیکشن یکم اکتوبر کو شروع کیے جائیں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ووٹوں کی گنتی 4 اکتوبر کو ہوگی، جبکہ 2019 میں ہریانہ کے الیکشن ریاست مہاراشٹرا اور جھاڑکھنڈ کے ساتھ ہوئے تھے، اس موقع پر بھارتی الیکشن کمیشن کے چیف راجیو کمار نے بتایا کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں انتخابات مرحلہ وار ہوں گے، پہلے مرحلے میں 18 ستمبر کو، دوسرے مرحلے میں 25 ستمبر اور تیسرے مرحلے میں یکم اکتوبر کو پولنگ ہوگی۔
تاہم ریاست ہریانہ میں انتخابات ایک ہی مرحلے میں یکم اکتوبر کو ہوں گے، چیف الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا کہ مقبوضہ وادی میں الیکشن کو لے کر جوش و جذبہ ہے، جبکہ عوام الیکشن کے عمل میں حصہ لینا چاہتی ہے۔
دعوے میں مزید کہا کہ عوام چاہتے ہیں کہ انتخابات جلد از جلد ہوں، مقبوضہ کشمیر کے لوک سبھا کے انتخابات میں ووٹرز کی لمبی قطاریں اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام نہ صرف تبدیلی چاہتے ہیں بلکہ وہ اس عمل میں شامل ہو کر اپنی آواز بھی اعلیٰ حکام تک پہنچانا چاہتے ہیں، یہ امید کی کرن ظاہر کرتی ہے کہ عوام تصویر کو بدلنا چاہتے ہیں، وہ اپنی قسمت خود لکھنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے بھارتی سپریم کورٹ نے ستمبر تک مقبوضہ وادی میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
الیکشن شیڈول کا اعلان اس وقت سامنے آیا ہے، جب محض ایک ماہ قبل مودی حکومت نے مقبوضہ جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات کو پولیس اور عوامی احکامات سے پوسٹنگ اور پراسیکیوشن کے حوالے احکامات تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ اپوزیشن نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے وزیر اعلیٰ مقبوضہ جموں کشمیر اور خطے کے عوام کو بے اختیار کرنا قرار دیا ہے۔
تقرر و تبادلے
دوسری جانب انتخابات کے اعلان سے چند گھنٹے قبل حکام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پولیس اور انتظامیہ میں بڑے تبادلے کیے گئے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کمشیر انتظامیہ کو اس بڑے پیمانے پر تبادلوں کے احکامات دینے کے لیے یوم آزادی کے موقع پر کام کرنے کے لیے افسران کو سیکریٹریٹ اور پولیس ہیڈ کوارٹر میں بلانا پڑا، اس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں قطعی طور پر کوئی اندازہ نہیں تھا کہ بھارتی الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے۔
جبکہ نیشنل کانفرنس کے رہنما علی محمد ساگر کا کہنا تھا کہ بھارتی جنتا پارٹی نے لیفٹیننٹ گورنر کو اپوائنٹ کرا کے اپنی پارٹی کے رہنماؤں اور اتحادیوں کو فائدہ پہنچایا۔