پاکستان

28 محکمے، ڈیڑھ لاکھ سرکاری نوکریاں ختم کرنے کا فیصلہ

کشمیر افیئرز اور گلگت بلتستان، اسٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز، انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن، انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن اینڈ نیشنل ہیلتھ سروسز سے محکمے ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

انتظامی اخراجات کو کم کرنے اور ریاستی مشینری کو ہموار کرنے کی غرض سے وفاقی حکومت نے پانچ وزارتوں کے 28 محکموں کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 16 اگست کو وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں کمیٹی کی سفارشات پر فیصلہ کیا گیا ہے۔

کمیٹی کی جانب سے وزیر اعظم کو بریفنگ دی گئی تھی، جہاں 5 وزارتوں میں اصلاحات سے متعلق بتایا گیا، جن میں کشمیر افیئرز اور گلگت بلتستان، اسٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز، انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن، انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن اینڈ نیشنل ہیلتھ سروسز شامل ہیں۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اجلاس میں وزارت کشمیر افئیرز اور گلگت بلتستان کو اسٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجنز میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ 5 وزارتوں میں موجود 28 مختلف محکموں کو بھی بند کرنے، نجکاری کرنے یا پھر ان محکموں کو فیڈرل یونٹس کو دینے کی تجویز دی گئی ہے، پانچ وزارتوں کے اندر 12 اداروں کو مضبوط کرنے کی تجویز بھی دی گئی تھی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کو منظوری کے لیے تجویز بھیجنے کی ہدایت کی ہے، جبکہ جامع منصوبہ بندی کرنے اور عمل درآمد کی ہدایت بھی کی ہے، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومتی اداروں کے اصلاحات کا مقصد قومی خزانے پر بوجھ کو کم کرنا ہے، اور عوام کے لیے خدمات کو مزید بہتر بنانا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عوامی خدمت میں کارکردگی نہ دکھانے اور قومی خزانے پر بوجھ بننے والے حکومتی اداروں کو مکمل طور پر بند کردیا جائے، یا پھر نجکاری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

وزیر اعظم کا کمیٹی سے اظہار خیال میں کہنا تھا کہ وہ چھوٹے اور درمیانے انٹرپرائسز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو نجی طور پر سپروائز کریں گے، اس کا مقصد ایس ایم ای سیکٹر میں کاروبار کو فروغ دینا ہے۔

اصلاحاتی کمیٹی کی جانب سے تجویز میں کہنا تھا کہ ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیوں کو ختم کرنے اور آؤٹ سورس کے غیر بنیادی کام جیسے کہ صفائی، چوکیداری، میں گریڈ 1 تا 16 تک کی مختلف پوسٹوں کو مرحلہ وار ختم کیا جائے گا۔

کمیٹی میں تجویز میں یہ بھی بتایا کہ ہنگامی آسامیوں میں کی جانے والی بھرتیوں پر پابندی لگائی جائے اور وزارتوں کے کیش بیلنس پر وزارت خزانہ کی طرف سے نگرانی کی جائے۔