پاکستان

’ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دفاتر بیرون ملک منتقل کرنے پر غور‘

جنوری تا جون 2024 کے دوران دبئی میں 3 ہزار 986 پاکستانی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں، یہ تعداد 17 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے، دبئی چیمبر آف کامرس

پاکستان بزنس کونسل نے خبردار کیا ہے کہ متعدد ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان سے اپنے دفاتر دوسرے ملک منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں، جبکہ اکثر پہلے ہی ایسا کرچکی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ انتباہ دبئی چیمبر آف کامرس کی ایک رپورٹ کے درمیان سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جنوری تا جون 2024 کے دوران دبئی میں 3 ہزار 986 پاکستانی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں، نتیجتاً پاکستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر آنے والا ملک بن گیا ہے، یہ تعداد 2023 میں اسی مدت کے دوران رجسٹرڈ 3 ہزار 395 کمپنیوں کے مقابلے میں 17 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔

گزشتہ سال دبئی چیمبر آف کامرس نے 8 ہزار 36 نئے پاکستانی کاروبار رجسٹر کیے تھے۔

دبئی میں پاکستانی کاروباری اداروں میں اضافہ ایک ایسے ملک سے بڑھتے ہوئے اخراج کو نمایاں کرتا ہے جو پہلے ہی شدید بے روزگاری اور معاشی سست روی سے دوچار ہے، لاکھوں ہنر مند اور غیر ہنر مند پاکستانی پہلے ہی ملک سے جا چکے ہیں، اس کے علاوہ مبینہ طور پر ،مزید لاکھوں افراد بیرون ملک مواقعوں کی تلاش میں ہیں۔

پاکستان بزنس کونسل نے ایک بیان میں کہا کہ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں یا تو پاکستان سے اپنے دفاتر کو منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں یا پہلے ہی ایسا کر چکی ہیں، کیونکہ فائر وال لگانے کی اطلاعات سے پورے ملک میں انٹرنیٹ میں بڑے پیمانے پر خلل پڑا ہے۔

یہ صورتحال حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے، اعتماد کے اس فقدان میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل میں کاروبار کرنے کی بلند لاگت، سیاسی بے یقینی، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال شامل ہے۔

پی بی سی کا کہنا تھا کہ ہم بجلی کی پیداوار میں غیر استعمال شدہ صلاحیت کے اخراجات کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بے روزگاری اور برآمدات اور ٹیکس ریونیو کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اب ہمیں ابھرتے ہوئے سافٹ ویئر سیکٹر میں فائر وال کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے صلاحیت کے متاثر ہونے کے خطرے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

ٹیک انڈسٹری نے انٹرنیٹ کی حالیہ سست روی پر پہلے ہی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ان رکاوٹوں سے پاکستان کو 30 کروڑ ڈالر تک کا نقصان ہو سکتا ہے، پی بی سی نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ صحیح فائر وال حاصل کریں یا روزگار اور برآمدات پر غیر ضروری اثر ڈالے بغیر اسے لاگو کرنا سیکھیں۔

اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) نے بھی خبردار کیا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی مسلسل رکاوٹیں ملک کی معاشی ترقی کو پٹری سے اتار سکتی ہیں۔

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ رکاوٹیں محض تکلیفیں نہیں ہیں بلکہ صنعت پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جبکہ مالی نقصانات 30 کروڑ ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔