پاکستان

ماضی میں کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے اعلیٰ فوجی افسران

جہاں ایک جانب فیض حمید میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہیں وہیں یہ پہلا موقع نہیں کہ جب فوجی افسر کو اپنے غلط اقدام کی وجہ سے ادارہ جاتی احتساب کے عمل سے گزرنا پڑا ہو۔

گزشتہ ہفتے پاک فوج نے اعلان کیا کہ انہوں نے سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو تحویل میں لے لیا ہے اور خفیہ ادارے کے سابق سربراہ کے خلاف کورٹ مارشل کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔

پاک فوج کے شعبہ ابلاغ آئی ایس پی آر کے مطابق نجی ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل سے تعلق کی بنیاد پر جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا جاچکا ہے۔ گزشتہ روز تازہ ترین بیان میں اعلان کیا گیا کہ جنرل فیض حمید کے سلسلے میں مزید تین اعلیٰ فوجی افسران کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

متعلقہ نجی ہاؤسنگ اسکیم ٹاپ سٹی کی انتظامیہ نے سابق آئی ایس آئی چیف کے خلاف سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے مبینہ کیس کے سلسلے میں ہاؤسنگ اسکیم کے مالک معز خان کے دفاتر اور رہائش گاہ پر چھاپے پڑوانے میں ملوث ہیں جس میں نقدی، سونا، ہیرے کے زیورات اور دیگر قیمتی سامان لوٹ لیا گیا تھا۔

جہاں ایک جانب یہ خبریں میڈیا کی شہ سرخیاں بنی ہوئی ہیں وہیں یہ پہلا موقع نہیں کہ جب فوجی افسر کو اپنے غلط اقدام کی وجہ سے ادارہ جاتی احتساب کے عمل سے گزرنا پڑا ہو۔

آئیے ان اعلیٰ فوجی افسران پر نظر ڈالتے ہیں جن کے کورٹ مارشل نے ماضی میں عوامی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔

این ایل سی گھوٹالا — لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد منیر خان اور محمد افضل مظفر

2009ء میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے نیشنل لاجسٹکس سیل (این ایل سی) کی رپورٹ کے بعد ایک انکوائری شروع کی جس میں سامنے آیا تھا کہ این ایل سی کو 2004ء اور 2008ء کے درمیان 1.8 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ یہ نقصان کمرشل بینکوں کے قرضوں کے نتیجے میں ہوا جو اعلی شرح سود پر دیے گئے اور پنشنرز کے 4 ارب روپے اسٹاک مارکیٹوں میں لگائے گئے۔ ان کمپنیز سے غیرقانونی طور پر رقم موصول ہوئی جن کے ذریعے سرمایہ کاری کی گئی۔

پی اے سی کے احکامات کے تحت پلاننگ کمیشن کی انکوائری سے یہ بات سامنے آئی کہ این ایل سی میں چین آف کمانڈ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے مالی بے ضابطگیاں، شفافیت کا فقدان ہوا اور قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں ہوئی۔

انکوائری میں سابق کوارٹر ماسٹرز لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد منیر خان اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ایم افضل مظفر، این ایل سی کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ر) میجر جنرل خالد ظہیر اختر اور دو شہریوں نجیب الرحمان اور سعید الرحمن کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی گئی۔ کوارٹر ماسٹر جنرل کی دفتری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ این ایل سی بھی انہیں کہ ماتحت ہوتا ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی کے نتائج کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو دینے کے بجائے آرمی ایکٹ کے سیکشن 94 کے تحت الزامات پر ٹرائل کا فیصلہ کیا۔ نومبر 2010ء میں آرمی کورٹ آف انکوائری کا اجلاس بلایا گیا اور اس کے ابتدائی نتائج فروری 2011ء میں آرمی چیف کو پیش کیے گئے۔ اس کے بعد جنرل اشفاق کیانی کی طرف سے باقاعدہ تحقیقات کا حکم دیا گیا اور انہوں نے منصفانہ فوجی ٹرائل کی اجازت دی۔

2015ء میں تحقیقات میں سامنے آیا کہ دو ریٹائرڈ جنرل آفیسرز اور ایک سویلین آفیسر این ایل سی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرمایہ کاری سے متعلق غلط فیصلے کرنے کے ذمہ دار تھے۔

دونوں جرنیلوں کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی گئی۔ خالد ظہیر کو ’ملازمت سے برطرف‘ کردیا گیا جبکہ افضل مظفر نے ’شدید برہمی (ریکارڈ شدہ)‘ کا سامنا کیا۔

جاسوسی کا الزام — لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال

لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) نے 30 مئی 2019ء کو ’قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ غیر ملکی ایجنسیز کے لیے جاسوسی/ حساس معلومات افشاں کرنے‘ کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔

مئی 2021ء میں ان کی 14 سالہ سزا کو اپلیٹ اتھارٹی نے 7 سال کردیا تھا، بعدازاں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو سے رخصتی سے قبل ان کی سزا مزید کم کرکے محض ڈھائی سال کردی۔

یوں جنرل (ر) جاوید اقبال کو گزشتہ سال 29 مئی کو رہا کیا جانا تھا لیکن نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ان کی سزا مکمل طور پر ختم کردی اور ان کی قبل از وقت رہائی ممکن ہوئی۔

بغاوت کی کوشش — میجر جنرل ظہیرالاسلام عباسی و دیگر

میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی، بریگیڈیئر مستنصر باللہ، کرنل محمد آزاد منہاس، کرنل عنایت اللہ خان اور دیگر 38 فوجی افسران کو 26 ستمبر 1995ء کو جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں 30 ستمبر کو متوقع کور کمانڈرز اجلاس میں دھاوا بولنے کی سازش رچنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس مبینہ منصوبے میں اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ، سینیئر کابینہ اراکین اور ملٹری قیادت کو قتل کرنے کی سازش بھی شامل تھی جس کے بعد ملک میں اسلامی خلافت کا نظام رائج کیا جاتا اور میجر جنرل ظہیرالااسلام عباسی امیر المومنین بنتے۔

سازش کا پردا اس وقت چاک ہوا کہ جب حرکت الجہاد الاسلامی کے سربراہ قاری سیف اللہ اختر نے ملک کی اس وقت کی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا حالانکہ وہ خود بھی منصوبہ بندی کا حصہ تھے۔

ان کی گواہی پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر جنرل (ر) ظہیرالاسلام عباسی کو 7 سال سزا سنائی جبکہ ان سے اسلحہ کا ذخیرہ اور فوج کی وردی بھی ضبط کرلی گئی۔ ایف جی سی ایم نے فوجی بغاوت میں ملوث پائے جانے پر بریگیڈیئر مستنصر باللہ کو 14 سال قید کی سزا سنائی۔

کرنل محمد آزاد منہاس اور کرنل عنایت اللہ خان کو ستمبر 1996ء میں سازش میں ملوث ہونے پر ایف جی سی ایم کی جانب سے کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا جبکہ فوجی عدالت نے دونوں کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی۔

بغاوت اور دہشت گردوں سے روابط — بریگیڈیئر (ر) علی خان

2011ء میں بریگیڈیئر علی خان کو کالعدم تنظیم حزب التحریر سے روابط کے الزامات پر گرفتار کیا گیا۔ اس مقدمے میں میجر عنایت عزیز، میجر افتخار، میجر سہیل اکبر اور میجر جواد بصیر سمیت چاروں ملزمان کو کیس میں سزا سنائی گئی۔

ایف جی سی ایم نے بریگیڈیئر علی خان کو پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔

میجر سہیل اکبر کو تین سال قید بامشقت جبکہ میجر جاوید بصیر کو دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ میجر عنایت عزیز کو ایک سال جبکہ میجر افتخار کو 6 ماہ قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی۔

بریگیڈیئر علی خان پر حکومت کا تخت الٹنے کی سازش، فوج میں بغاوت کو ہوا دینے اور جی ایچ کیو پر حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ انہیں 2016ء میں پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

7 ماہ کے طویل ٹرائل کے بعد پراسیکیوٹر کی جانب سے 5 فوجی افسران نے گواہی دی۔

افسران نے دعویٰ کیا کہ ملزم بریگیڈیئر علی خان نے عوامی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔

سروس سے برطرفی

ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ جن میں جنرل افسران کو کورٹ مارشل کے بجائے تادیبی کارروائی کے بعد انتظامی طور پر سروسز سے برطرف کردیا گیا۔

جنرل (ر) ضیاالدین بٹ کو اکتوبر 1999ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا، دو سال قید میں گزارے۔ ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ضیاالدین بٹ نے کہا کہ انہیں ہاتھ سے لکھا ہوا تحریری حکم موصول ہوا تھا کہ انہیں پاکستانی فوج کے قانون کے سیکشن 16 کے تحت سروس سے برطرف کردیا گیا ہے لیکن ان کا کورٹ مارشل نہیں ہوا۔

2016ء میں جنرل راحیل شریف کے مدت ملازمت کے دوران فوج میں بدعنوانی کی بدترین مثالوں میں سے ایک کے نتیجے میں اس وقت حاضر سروس افسران انسپکٹر جنرل آرمز لیفٹیننٹ جنرل عبیداللہ خٹک اور میجر جنرل اعجاز شاہد سمیت 6 افسران کو عہدوں سے برطرف کردیا گیا تھا۔

2015ء میں این ایل سی گھوٹالے میں ملوث جنرل آفیسرز کو بھی تادیبی کارروائی کے بعد سروسز سے برطرف کردیا گیا۔

’سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کورٹ مارشل نہیں ہوا‘

جہاں ہمیں ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں کہ کیسے آرمی نے اپنے اعلیٰ افسران کے غلط اقدامات کی پاداش میں ان کے خلاف کارروائیاں کیں وہیں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود وہ کارروائیاں کرنے میں ناکام رہے۔

1996ء میں اصغر خان نے سپریم کورٹ میں انسانی حقوق کی پٹیشن دائر کی جس میں آئی ایس آئی پر سیاستدانوں کے ایک گروپ کو 14 کروڑ روپے تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ملزمان میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی شامل تھے۔ اسد درانی نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی جمع کرکے الزامات کی تصدیق کی۔ بیان حلفی میں انہوں نے اس معاملے میں اپنے کردار کا ذکر کیا، دیگر کو نامزد کیا اور وضاحت کی کہ یہ اسکیم کیسے ترتیب دی گئی۔

بعدازاں 19 اکتوبر 2012ء میں ایک تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کو حکم دیا کہ وہ رقم کی تقسیم سے متعلق اعلیٰ افسران کے خلاف ضروری اقدامات لینے کا آغاز کریں۔

2019ء تک اصغر خان کے اہل خانہ کی جانب سے فیصلے پر عمل درآمد کی درخواست کی سماعت کے دوران وزارت دفاع کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق، وزارت دفاع نے ایک کورٹ آف انکوائری تشکیل دی تھی جس نے چھ گواہوں کے بیانات قلمبند کیے تھے جبکہ وہ ان کے علاوہ مزید گواہوں کی تلاش میں تھی۔

اسد درانی سے تفتیش کے لیے 2018ء میں ایک اور ’کورٹ انکوائری‘ تشکیل دی گئی۔ کورٹ آف انکوائری کتاب ’The Spy Chronicles: RAW, ISI, and the Illusion of Peace‘ کا جائزہ لینے اور اس بات کا تعین کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی کہ آیا اس کے مواد اور اسد درانی کا کردار کیا ہے۔

تین سال بعد اسد درانی نے اپنا نام نوفلائی لسٹ سے نکالنے کی درخواست کی تاکہ وہ بیرونِ ملک جا سکیں لیکن وزارت دفاع نے ان پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا کہ ’وہ 2008ء سے ملک دشمن عناصر بالخصوص بھارتی خفیہ ایجنسی را سے وابستہ ہیں یا ان سے بات چیت کر رہے ہیں‘۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکال دیا جبکہ اس موقع پر جج نے ریمارکس دیے کہ ’ریکارڈ کے مطابق وہ فی الحال کسی معاملے میں زیرِ تفتیش نہیں ہیں‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔