پاکستان

چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے، سپریم کورٹ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور نعیم اختر افغان وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کی برطرفی کی کیس پر سماعت کر رہے ہیں۔
|

سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک اور چیئرمن وائلڈ لائف بورڈ کو ہٹانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور نعیم اختر افغان کیس پر سماعت کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سماعت کے آغاز پر سیکریٹری کابینہ کامران علی افضل پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ پر فرد جرم عائد کریں؟ سچ بتائیں چیئرمن وائلڈ لائف بورڈ کے نوٹی فکیشن کے پیچھے کون ہے؟ کس کے کہنے پر نوٹی فیکیشن جاری ہوا؟

اس پر سیکریٹری کابینہ نے جواب دیا کہ چیئرمن وائلڈ لائف کی تبدیلی کے احکامات وزیر اعظم نے جاری کیے ہیں، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ سیکریٹری کابینہ نے الزام وزیر اعظم پر لگا دیا ہے، سیکریٹری کابینہ نے بھائی کو بچانے کے لیے الزام وزیر اعظم پر عائد کردیا، انہوں نے وزیر اعظم کو بس کے نیچے دھکا دے دیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مارگلہ ہلز سے متعلق حکم کے بعد سپریم کورٹ کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا، فریقین کی رضامندی سے حکم جاری ہوا پھر یہ پروپیگنڈا کون کر رہا ہے؟ مزید دریافت کیا کہ آپ کے بھائی لقمان علی افضل کدھر ہیں، سیکریٹری کابینہ نے جواب دیا کہ نہیں معلوم وہ کدھر ہیں۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پروپیگنڈا کی جنگ سپریم کورٹ کے خلاف کیوں چل رہی ہے؟

عدالت نے وکیل مخدوم علی خان اور سلمان اکرم راجا کی عدم حاضری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سینئر وکیل حکم امتناع لینے دو منٹ میں آجاتے ہیں، مگر حکم امتناع کے بعد سینئر وکیل نظر نہیں آتے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کس کی ملکیت ہے، مارگلہ نیشنل پارک اللہ کا تحفہ ہے۔

سپریم کورٹ نے چیئرمین کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات دیکھے ہیں؟ چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات پہلے نہیں دیکھے تھے لیکن جب معاملہ میرے علم میں آیا تو ایکشن لیا۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ساری شاہراہ دستور پر نجی سوسائٹی کے اشتہارات لگے ہیں، چیئرمین سی ڈی اے کب ایکشن لیں گے،؟ کیا جب عوام ہاؤسنگ سوسائٹی سے لٹ جائیں گے پھر سی ڈی اے ایکشن لے گی؟ اس پر چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائیٹی خیبر پختونخواہ میں آتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی میں فرد جرم عائد کریں؟ اسلام آباد میں کئی جگہوں پر ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات لگے ہیں۔

بعد ازاں وکیل نجی ہاؤسنگ سوسائٹی شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ہماری سوسائٹی خیبرپختونخوا میں ہے، ہماری ہاؤسنگ سوسائٹی کے درجنوں اشتہارات اسلام آباد میں لگے ہیں، سی ڈی اے کے افسر نے رابطہ کرکے سوسائٹی کے مالک سے اسپانسر مانگا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کے کس افسر نے رابطہ کیا؟ وکیل نے جواب دیا کہ یہ میرے علم میں نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مارگلہ ہلز میں آپ سوسائٹی کیسے بنا رہے ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ میرے مؤکل کی اپنی ملکیتی اراضی ہے اس پر منصوبہ شروع کیا، عدالت نے دریافت کیا کہ زمین کی ملکیتی دستاویزات کدھر ہیں؟ وکیل ہاؤسنگ سوسائٹی نے کہا کہ ملکیتی دستاویزات میرے مؤکل کے پاس ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل کو ہدات کی کہ شاہ صاحب، اپنے مؤکل کو بلالیں۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ 2018 میں بھی مارگلہ ہلز کا کیس چلا، لوگوں کے لمبے ہاتھوں کی وجہ سے پھر یہ کیس دبا دیا گیا، مارگلہ ہلز کے معاملہ پر وزارت داخلہ، وزارت کابینہ، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور سی ڈی اے ملوث ہیں۔

بعد ازاں وکیل شاہ خاور نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میرے مؤکل ڈیڑھ گھنٹے میں سپریم کورٹ پہنچ جائیں گے، میرے مؤکل صوابی سے نکل آئے ہیں۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کے مؤکل کا نام کیا ہے، وکیل نے بتایا کہ میرے مؤکل کا نام صدیق انور ہے، چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ اپنے مؤکل کا پورا نام بتائیں، وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل کا پورا نام کیپٹن صدیق انور ہے۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا آپ کے مؤکل کو بھی توہین عدالت کو نوٹس جاری کریں؟ آپ کے مؤکل نے اپنے ایڈریس میں جی ایچ کیو کیوں لکھا ہے؟ آپ کے مؤکل نے نام کے ساتھ ریٹائرڈ بھی نہیں لکھا، کیا آپ کا مؤکل تاثر دے رہا ہے کہ ہاؤسنگ منصوبہ فوج کا ہے؟

اس ملک میں ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے، چیف جسٹس

اسی کے ساتھ عدلت نے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اس ملک میں ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے، ساری حکومت آج عدالت میں کھڑی ہے لیکن معلوم کچھ نہیں، نیشنل پارک کو مجموعی طور پر بچانا ہے، اٹرانی جنرل نے کہا کہ خوبصورتی ساری مارگلہ ہلز کی ہے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ملک اب لینڈ مافیا کے حوالے ہے، سپریم کورٹ پر سب سے پہلے ہم نے انگلی اٹھائی تھی، 10,10 سال سے خلاف قانون بیٹھنے والوں کو واپس بھیجا، ڈیپوٹیشن والوں کو واپس کرنے پر بھی شور مچا، کہا گیا کہ چیف جسٹس نے یہ کردیا وہ کردیا،یہاں ذاتی حملہ کرا لو، گالی گلوچ کر الو بس، میں آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہوں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آج تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی لیکن اگر سیکریٹری کابینہ نے سچ نہ بولا تو نتائج بھگتیں گے، زندگی میں کبھی ایک پلاٹ نہیں لیا، جو خریدا اپنی کمائی سے خریدا۔

مزید کہا کہ ایک کیمرہ پکڑو اور ہوگیا یوٹیوب چینل شروع، ہر بندہ یہاں ایک ایجنڈے پر چل رہا ہے، چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے، ہمارے پاس کوئی میڈیا ٹیم نہیں جو دفاع کر سکے۔

عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کیوں کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے وزیر اعظم ہاؤس کو درخواست آئی کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تصوراتی بات لگتی ہے، وزارت ہاؤسنگ سی ڈی اے کے ماتحت ہے یہ بات سمجھ بھی آتی ہے لیکن پلاننگ اور ہاؤسنگ کا وزارت داخلہ سے کیا تعلق ہے؟ ہم تو کہہ رہے ہیں سی ڈی اے کو بھی وزارت داخلہ سے نکال دیں.

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسی بات ہے تو وزارت تعلیم کو وزارت ریلویز میں ڈال دیں، کیوں نہ وزارت داخلہ کو نوٹس کریں؟ سارا گند ہی ختم ہو جائے گا، پارلیمان کس لیے ہوتا ہے؟ پارلیمان میں ایسے موضوعات پر بحث کیوں نہیں ہوتی، اگر ایسا ہے تو پارلیمنٹ کو بند کردیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کا نہیں آرٹیکل 99 کے تحت رولز آف بزنس بنتے ہیں جس سے معاملات چلائے جاتے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بات تو کر سکتے ہیں؟ کوئی طاقتور آیا ہو گا اور اس نے کہا ہو گا سی ڈی اے کو میری وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پلاٹس وغیرہ کے بھی معاملات ہوتے ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان نے چیئرمین سی ڈی اے سے استفسار کیا آپ کی کیا رائے ہے، کیا سی ڈی اے کو وزارت داخلہ کے ماتحت رہنا چاہیے؟ چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کو وزارت داخلہ سے عملدرآمد کرنے کے لیے پاور مل جاتی ہے، پولیس اور انتظامیہ بھی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کیا کہ آپ کی طبعیت ٹھیک ہے؟ آپ اتنے اہل نہیں ہیں کہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروا سکیں؟ اگر ایسی بات ہے تو ایف بی آر کو بھی وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پھر ٹیکس نہ دینے والوں کو پولیس پکڑ لے گی، جرمنی، فرانس، امریکا، بھارت سمیت کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں ہو رہا ہے۔

’کیا وزارت داخلہ وزیر اعظم آفس سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟‘

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ رولز آف بزنس کے تحت فیڈرل گورنمنٹ ڈویژنز کو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کرتی رہتی ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کیا وزارت داخلہ وزیر اعظم آفس سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ ہم نے مارگلہ میں کمرشل سرگرمیاں روکنے کا کہا یہاں نوٹیفکیشن نکلنے لگے، یہاں کہا جاتا ہے مارگلہ میں پودے لگا رہے ہیں، کوئی آدھے دماغ والا آدمی بھی ایسی بات نہیں بولے گا، جنگل میں پودوں کی افزائش خود ہوا کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے ضیا دور میں پولن کا باعث بننے والے درختوں کی شجرکاری کا بھی حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ چار دہائی پہلے ایک صاحب آئے اور پیپر میلبری لگاتے رہے، کسی ایکسپرٹ سے پوچھا بھی نہیں اس کے اثرات کیا ہوں گے۔

مزئؤید ریمارکس دیے کہ مونال کے مالک نے سپریم کورٹ کے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا، کہتے ہیں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے، تو اپنے کسی اور ریسٹورنٹ میں انہیں ملازمت دے دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ لقمان افضل عدالت نہیں آئے؟ کسی یوٹیوب کو انٹرویو دے رہے ہوں گے۔

اس موقع پر ڈی جی گلیات اور پائن سٹی کے مالک کیپٹن ریٹائرڈ صدیق انور عدالت میں پیش ہوگئے۔

ڈی جی گلیات نے بتایا کہ ہم نے پائن سٹی کوتعمیرات سے روکا تو یہ اسٹے لے آئے، چیف جسٹس نے صدیق انور سے استفسار کیا کہ آپ وہاں کیاں بنانا چاہتے ہیں؟ صدیق انور نے جواب دیا کہ مجھے معاف کر دیں میں کچھ نہیں بناؤں گا، جستس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ آپ کیا اب بھی فوج میں ہیں؟ نام کے ساتھ ریٹائر لکھا کیوں نہیں؟ کیپٹن (ر) صدیق انورنے جواب دیا کہ میں 1999 میں ریٹائر ہو گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ پائن سٹی کے ساتھ آپ کا ایڈریس جی ایچ کیو کا کیوں ہے؟ صدیق انور نے جواب دیا کہ جب یہ رجسٹر کروایا تب ایڈریس یہی تھا، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا آپ سروس میں ہوتے ہوئے بزنس کر سکتے تھے؟ جب آپ ریٹائر ہوئے آپ کی تنخواہ کیا تھی؟ صدیق انور نے بتایا کہاس وقت کم تنخواہیں تھی، میری تنخواہ 7 ہزار روپے تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ سات ہزار کی تنخواہ پر آپ نے 35 کروڑ کی زمین کیسے خریدی؟ صدیق انور نے بتایا کہ میں نے گاؤں کی زمین بیچی تھی، میں نے پھر یہ زمین نواب آف خان پور سے خریدی، مارگلہ پہاڑ بھی نواب آف خان پور کے تھے۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ فوجی ہیں کس طرح کی بات کر رہے ہیں؟ آپ مارگلہ کو تباہ کر رہے ہیں، اس پر صدیق انوار نے کہا کہ میں تو مارگلہ کو بنا رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیا کہ بنا قدرت نے دیا ہے آپ اسے چھوڑ دیں، صدیق انور نے جواب دیا کہ چھوڑ دیتا ہوں، میں صرف نیچر ایڈونچر پارک بنانا چاہتا تھا، عدالت نے کہا کہ پائن سٹی نام سے تو لگتا ہے یہ رہائشی منصوبہ ہے، صدیق انور نے کہا کہ میں نے اس نام سے نقصان اٹھایا ہے، سوچتا ہوں نام بدل دوں، عدالت نے کہا کہ آپ نام نہیں کام ہی بدل دیں، یہاں تعمیرات نہیں ہو سکتیں، ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک نے جواب دیا کہ میں نے وہاں نئے درخت بھی لگائے ہیں۔

اس پر ، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ آپ کا صدقہ جاریہ رہے گا، ثواب آپ کو ملے گا، نیشنل پارک میں تعمیرات نہیں ہو سکتیں، یہ ہمارا فیصلہ ہے۔

اس پر صدیق انور کا کہنا تھا کہ میں نیشنل پارک میں نہیں ہوں، یہ میری ملکیتی زمین ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ملکیت رکھیں مگر اس پر تعمیرات نہیں کر سکتے، وکیل شاہ خاور ایڈوکیٹ نے کہا کہ اپنی زمین پر قانونی کاروبار ہو سکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا اپنا پلاٹ بھی ہو، تب بھی سی ڈی اے باونڈری وال کے اندر ایک حد تک آپ کو تعمیرات نہیں کرنے دیتا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے آج کی کیس کا مختصر حکمنامہ لکھنا شروع کردیا، اس کے مطابق وزیراعظم آفس کی بے توقیری نہیں ہونی چاہیے، وزیراعظم آفس کو دیکھنا چاہیے انہیں دی جانی والی ایڈوائیز مفاد عامہ کے تحت ہیں یا ذاتی مفاد کے تحت، یہ معاملہ حکومت پر چھوڑتے ہیں۔

یاد رہے کہ 9 اگست کو وائلڈ لائف بورڈ مینجمنٹ آفس اور چیئرپرسن کی تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے۔

یاد رہے کہ 8 اگست کو وائلڈ لائف بورڈ مینجمنٹ افس اور چیئرپرسن کی تبدیلی کے معاملے پر سپریم کورٹ میں سابقہ چیرپرسن رعنا سعید اور شہری بلال حق کی جانب سے توہین عدالت دائرکردی گئی تھی ۔

بلال حق کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے اندر ریسٹورنٹ چلانے والے نجی کاروباری افراد ، مونال اور لا مونٹانا کے مالکان ، نے رضاکارانہ طور پر سہولیات کو تین ماہ میں خالی کر نے کا کہا تھا اور اس بات پر اصرار کیا تھا کہ ڈھانچے کو ختم کرنے میں تین ماہ لگیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن تقریبا دو ماہ گزرنے کے بعد، بدقسمتی سے، نیشنل پارک کے اندر کمرشل ریسٹورنٹس کو ختم کرنے کا عمل ابھی شروع ہونا باقی ہے، جواب دہندگان کی طرف سے ایک اینٹ بھی نہیں ہٹائی گئی ہے، جو واضح طور پر عدالتی حکم کی تعمیل کرنے کے ارادے کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔

ان کے مطابق ریسٹورنٹس کو ختم کرنے کے بجائے، جواب دہندگان یعنی سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل، سیکرٹری داخلہ آفتاب درانی، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اسد رحمن گیلانی، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین چوہدری محمد علی رندھاوا نے اس کے بالکل برعکس توجہ مرکوز کی۔

انہوں نے الزام لگایا کہ وہ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ کو ختم کر رہے ہیں، وہ ادارہ جس نے گزشتہ چند سالوں میں جنگلی حیات کے تحفظ کے مقصد کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

درخواست میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ 19 جولائی 2024 کو جواب دہندگان نے ایک آزاد ماہر رعنا سعید خان کو اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ کے چیئرپرسن کے عہدے سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کے ایڈیشنل سیکرٹری کو تعینات کر دیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام قانونی طور پر قابل اعتراض ہے کیونکہ انہوں نے جنرل کلاز ایکٹ کے آرٹیکل 4 اور سیکشن 24 اے سے پیدا ہونے والے تمام انتظامی فیصلوں کی صحیح وجوہات کو ظاہر کرنے کے عوامی عہدیداروں کے فرض کی خلاف ورزی کی ہے۔

درخواست میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ آئی ڈبلیو ایم بی کی چیئرپرسن کو ہٹانے کے تقریباً ایک پندرہ دن بعد بورڈ کا انتظامی کنٹرول وزارت موسمیاتی تبدیلی سے چھین کر وزارت داخلہ کے حوالے کر دیا گیا، یہ 2 اگست 2024 کو وزیر اعظم آفس کی طرف سے جاری کردہ ایک خط کے ذریعے کیا گیا تھا۔

ان کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ بورڈ، اس کے چیئرپرسن اور اس کے ممبران کی اس نوٹیفکیشن کی کاپی بھی نہیں کی گئی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جواب دہندگان کس حد تک غیر شفاف طریقے سے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ، تاریخی طور پر، سی ڈی اے کے کنٹرول حوالے سے آئی ڈبلیو ایم بی اور وزارت داخلہ کے درمیان تنازع رہا ہے۔

درخواست میں الزام لگایا گیا کہ سی ڈی اے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں رئیل اسٹیٹ اور تجارتی ترقی میں سب سے آگے رہا ہےم یہ نہ صرف ماحولیات بلکہ نباتات اور حیوانات کے لیے بھی نقصان دہ طور پر کام کرتا ہے، سی ڈی اے نے قومی پارک کے علاقے میں تجارتی اداروں کو لائسنس دینے کے ساتھ ساتھ مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں سڑکوں کی تعمیر کی قیادت کی ہے، اس کے نتیجے میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا بنیادی مقصد، یعنی نباتات اور حیوانات کا تحفظ ا سی ڈی اے کے کہنے پر ضائع کر دیا گیا۔

درخواست کے مطابق حال ہی میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ایک نئی ہاؤسنگ اسکیم کی تشہیر کرنے والے بینرز قومی اسمبلی کے باہر لگایا گیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ یہ بینرز ممکنہ طور پر ملک کے سب سے زیادہ پولیس والے علاقے میں لگائے گئے تھے اس کا مطلب ہے کہ یا تو جواب دہندگان نیشنل پارک کے تحفظ کے حوالے سے عدالت کے حکم کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں یا وہ اپنی ذمہ داری میں غفلت برت رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنی ہدایت میں واضح کیا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو جنگلی حیات کے تحفظ اور تعلیمی مقاصد کے لیے محفوظ کیا جانا تھا، یہ انتہائی توہین آمیز ہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کوشش کرنے کے بجائے، جواب دہندگان مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ایک بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیر میں یا تو ملوث ہیں یا اس سے لاتعلق ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ حال ہی میں سی ڈی اے نے یکطرفہ طور پر نیشنل پارک کے اندر شجر کاری مہم کا آغاز کیا، یہ پورا عمل اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ پارک کے قانونی نگراں کے ساتھ کسی مشاورت کے بغیر اور نباتاتی ماہرین کے کسی آزاد مشورے کے بغیر انجام دیا گیا۔

مشاورت کا یہ عمل نہ صرف قانون کا تقاضا تھا بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی ضروری تھا کہ صرف مقامی انواع ہی کے پودے لگائے جائیں۔

یاد رہے کہ 11 جون کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے اندر مونال ریسٹورنٹ اور دیگر تمام تجارتی اداروں کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔