دنیا

طالبان کے اقتدا میں آنے کے 3 سال مکمل، کابل میں فوجی طاقت کا مظاہرہ

افغان طالبان انتظامیہ کی جانب سے کابل شہر کے 'غازی اسٹیڈیم' میں فوجی پریڈ کا انعقاد کیا گیا تھا، جہاں ایرانی اور چینی سفارتکاروں نے بھی شرکت کی۔

افغان طالبان کی جانب سے اقتدا سنبھالنے کے تین سال مکمل ہونے پر دارالحکومت میں فوجی پریڈ کا انعقاد کیا گیا تھا، جہاں مقامی طور پر تیار کردہ بم، فائٹر ایئر کرافٹ اور انسانی طاقت کو پریڈ کا حصہ بنایا گیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی خبر کے مطابق 14 اگست کے روز منعقد پریڈ میں طالبان سیکیورٹی فورس کی جانب سے سوویت دور کے ٹینکوں اور بگرام میں امریکی ایئر بیس میں موجود آرٹلری کو بھی پریڈ میں شامل کیا گیا تھا، اس موقع پر چینی اور ایرانی سفارتکاروں کی جانب سے بھی شرکت کی گئی تھی، جبکہ تقریب میں ہزاروں افراد موجود تھے۔

سابق امریکی ایئر بیس بگرام 2 دہائیوں تک جاری رہنے والے طالبان مخالف آپریشن میں امریکا کے لیے اہم بیس سمجھی جاتی تھی۔

عالمی فورسز کے خلاف جنگ میں مقامی طور پر بنائے گئے بموں کو لے جانے والی موٹرسائیکز جن کے ساتھ پیلے رنگ کے جیری کینز بھی موجود ہوتے ہیں، انہیں بھی پریڈ میں شامل کیا گیا تھا۔

اسی پریڈ کی تقریب میں امریکی ساختہ فوجی گاڑیاں بھی شامل تھی، جن پر افغان طالبان کے حکام اپنے ملک کا سفید رنگ کا جھنڈا لیے موجود تھے، جس پر کلمہ طیبہ موجود ہے۔

واضح رہے افغان طالبان نے 15 اگست 2021 کو دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھال کیا تھا، جس کے بعد امریکی حمایت یافتہ اشرف غنی کی حکومت ٹوٹ گئی تھی، جبکہ حکومتی رہنماؤں کو مختلف ممالک میں سیاسی پناہ لینا پڑی۔

اے ایف پی سے بات چیت میں 20 سالہ یونی ورسٹی طالبہ مدینہ نے بتایاکہ 3 سال گزر چکے ہیں، لڑکیوں کے خواب دفن کر دیے گئے ہیں۔ مدینہ کا کہنا تھا کہ ہر سال یاد کر کے مزید احساسات تلخ ہوجاتے ہیں، اس دن کا جشن ہمیں ہماری یادوں، محنت اور مقاصدکی یاد دلاتا ہے، جو ہم نے مستقبل کے لیے سوچے تھے۔

وزیر اعظم محمد حسن اخند کی جانب سے بگرام میں طے شدہ پروگرام میں شرکت کرنا تھی، تاہم چیف آ ف اسٹاف کی جانب سے ان کابیان تقریب میں پڑھ کر سنایاگیا، جس میں انہوں نے طالبان انتظامیہ کی مغربی ممالک کے خلاف فتح پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

وزیر اعظم کا بیان میں کہنا تھا کہ اسلامی قوانین پر عمل درآمد، عوام کی جان و مال کی حفاظت اور ملک کی سالمیت کی ذمہ داری طالبان حکومت پر آتی ہے۔

فتح

اقتدار سنبھالنے کے تین عرصے بعد بھی طالبان انتظامیہ کے لیے سیکیورٹی پہلی ترجیح رہی ہے، کیونکہ اب تک حکام کی جانب سے اسلامی قوانین کے نفاذ میں سختی سے کام لیا ہے، تاہم داعش طالبان حکومت کے لیے خطرہ ہی رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے دارالحکومت کابل اور طالبان کے روحانی گھر قندھار میں سیکیورٹی مزید بڑھا دی ہے۔

کابل کے غازی اسٹیڈیم میں منعقد تقریب کی نگرانی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی کی جا رہی تھی، جہاں ہزاروں افراد نے افغان طالبان کے ایتھلیٹس کی پرفارمنس کو دیکھا۔

دوسری جانب کئی افغان ایسے بھی ہیں، جنہوں نے 40 سال کے اس تنازع کے اختتام پر سُکھ کا سانس لیا، تاہم میعشت مزید مشکلات کا شکار ہے اور آبادی بڑھتے ہوئے بحران میں پھنستی جا رہی ہے۔

عالمی غیر سرکاری گروپوں کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں امدادی فنڈنگ کے بڑھتے ہوئے فرق کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے، جہاں 23 اعشاریہ 7 ملین افراد کو امداد کی ضرورت لاحق ہے۔

واضح رہے طالبان حکومت کے دور میں خواتین کے عوامی مقامات، نوکریوں، پارکس میں داخلے پر پابندی عائد ہے، جبکہ لڑکیوں کو سیکنڈری اور ہائیر ایجوکیشن کی بھی اجازت نہیں ہے، ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے طالبان حکومت سے خواتین پر لگائی گئیں پابندیاں ہٹانے پر دباؤ بھی ڈالا جاتا رہا ہے۔