’پاکستان آتے ہوئے ٹرین سے باہر ہم نے لاشوں کے انبار دیکھے جنہیں گدھ نوچ رہے تھے‘
برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں تاریخی ہجرت ہوئی جسے تاریخ کے اوراق میں خون سے لکھا گیا۔ اس ہجرت میں 10 لاکھ سے زائد افراد اپنی جان سے گئے جبکہ ایک کروڑ افراد اپنے آشیانوں سے محروم ہوئے۔ مہاجرین میں لاتعداد بچے بھی شامل تھے۔ اس وقت لکھاری ریحانہ وحید 9 جبکہ ان کے بھائی پرویز احمد خان کی عمر 7 برس تھی۔ دونوں بہن بھائی 1947ء میں شملہ سے لاہور ہجرت کے دردناک واقعات کو یاد کرتے ہیں۔
ریحانہ وحید: اپنی زندگی کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارا خاندان 20ویں صدی کی سب سے بڑی ہجرت کا حصہ تھا کہ جب 1947ء میں برصغیر میں بڑے پیمانے پر علاقائی تبدیلی رونما ہوئی۔ یہ ہماری کہانی ہے کہ ہم نے کیسے پاکستان کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالا۔ میں اس وقت 9 سال کی تھی جبکہ میرا بھائی پرویز جسے ہم پیار سے پیٹی کہتے تھے 7 سال کا تھا اور ہم دونوں کو وہ وقت اس طرح یاد ہے کہ جیسے یہ واقعات کل ہی رونما ہوئے ہوں۔
ہم شملہ کے مضافاتی علاقے میں رہتے تھے۔ یہ ہل اسٹیشن پر واقع ایک خوبصورت علاقہ تھا اور برطانوی راج میں یہ موسمِ گرما میں ہندوستان کا دارالحکومت بن جاتا تھا جہاں انگریز تفریح کی غرض سے آتے تھے۔ ہم جہاں رہتے تھے، اس علاقے کو سنجولی کہا جاتا تھا جس پر ایک ہندو راجا کی حکومت تھی۔ اس علاقے میں لوگ ’دودھ میں پانی تک نہیں ملاتے تھے‘۔ ہم دونوں سے بھی ایک چھوٹا بھائی ہے جسے ہم پیار سے پپو کہتے ہیں، اس وقت وہ دو سال کا ہوا تھا۔
ہمارے والد صاحب ڈاکٹر آفتاب احمد خان نے 1937ء میں سنجولی میں ہی اپنی میڈیکل پریکٹس کا آغاز کیا۔
پرویز خان: تقریباً 5 ہزار افراد کی آبادی پر مشتمل اس چھوٹے سے علاقے میں میرے والد واحد ڈاکٹر تھے۔ آبادی کے 70 فیصد افراد تبتی تھے جنہیں بلتی مسلمان بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ گزشتہ 60 سالوں میں خوشحال ہوچکے تھے اور یہاں انہوں نے اپنی جائیدادیں بھی بنالی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر تبتی مرزا حسین اور خان بہادر بدرالدین کی طرح شگری تھے۔ خواجہ عبدالغنی کا کشمیری خاندان تنہا تھا جس کا سنجولی میں انگریز طرز کا ایک عالیشان گھر تھا جسے ’نارتھ اوک‘ کہا جاتا تھا۔
اگست 1947ء کے اختتام تک پاکستان سے یہ افواہیں اور کہانیاں گردش کرنے لگیں کہ راولپنڈی میں مسلمانوں نے بڑی تعداد میں سکھوں کو قتل کیا ہے۔
ہوٹل میں محصور
ریحانہ وحید: ستمبر کے وسط کی بات ہے کہ جب ہمارے والدین نے ہم سے کہا کہ ہم اسکول نہیں جائیں گے اور شملہ میں دیگر مسلمان گھرانوں کے ہمراہ نامور الیسیئم ہوٹل میں قیام کریں گے کیونکہ وہ’محفوظ’ ہے۔ ہم نے مختصر قیام کی غرض سے اپنے چند کپڑے پیک کیے لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہماری تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا ہے اور ہم کبھی اپنے گھر لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
ہوٹل میں قیام کے دوران والد نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر جا کر قیمتی اشیا لے کر آئیں گے۔ وہ ہمارے باورچی شکور کے ہمراہ گھر گئے لیکن انہیں معلوم ہوا کہ مقامی اور ہجرت کرکے آنے والے سکھ پاکستان میں ہونے والے قتل عام پر سیخ پا ہیں۔ وہاں کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) بھی سکھ تھے جو میرے والد کو جانتے تھے۔ انہوں نے میرے والد سے کہا کہ اپنی حفاظت کے لیے وہ صبح تک پولیس کی حراست میں رہیں اور میرے والد نے ایسا ہی کیا۔
پرویز خان: الیسیئم ہوٹل سے دور شملہ کی مرکزی چوٹی تھی جس کے نیچے ایک وسیع و عریض بستی تھی۔ اس بستی میں سکھوں کا بڑا گردوارہ تھا جہاں وہ ہر رات جمع ہوتے اور پُرتشد نعرے لگاتے جس سے پوری وادی گونج اٹھتی تھی۔ یہ آوازیں خوفناک ہوتی تھیں اور ہمیں ہر رات خطرہ محسوس ہوتا کہ کہیں مشتعل لوگ ہمارے ہوٹل پر حملہ نہ کردیں۔ 18 سے 70 سال کے درمیان کے افراد رات بھر جاگ کر بیلچوں، کدالوں، بڑی کلہاڑیوں وغیرہ کے ساتھ ہوٹل پر پہرہ دیتے تھے کیونکہ ہمارے پاس اپنی حفاظت کے لیے بندوقیں یا تلواریں نہیں تھیں۔
میری والدہ نے مجھ سے چٹان کا ایک پتھر لانے کو کہا اور پھر انہوں نے پیتل کی راڈ لی جو پردے لٹکانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے راڈ کے ایک سرے کو تراشا اور اس حد تک تراشا کہ وہ ایک نیزے کی طرح تیز ہوگیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا، ’اگر حملہ ہوا تو میں خود مرنے سے پہلے چند کو مار دوں گی‘۔
کالکا کیمپ
ریحانہ وحید: ہوٹل کے برآمدے میں ایک کونا تھا جہاں میرے ڈیڈی مریضوں کا علاج کرتے تھے۔ ایک دن ہم نے ایک نوجوان دیکھا جس کی پیٹھ برہنہ تھی اور اس پر ایک انتہائی گہرا زخم تھا۔ اس نوجوان نے بتایا کہ تلوار بردار سکھ نے اس پر حملہ کیا۔
اگلے چند ہفتوں تک یونہی حالات کشیدہ رہے جس کے بعد اکتوبر میں ہم سے کہا گیا کہ ہم ٹرین کے ذریعے ہریانہ کے کالکا کیمپ جارہے ہیں۔ وہاں پاکستان جانے والے مہاجرین کے لیے کیمپ لگایا گیا تھا۔
6 یا اس سے زائد گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم کالکا پہنچ گئے۔ خاندانوں نے اپنے خیمے نصب کیے اور یہاں ہم نے 3 ہفتوں تک قیام کیا۔ پتلی دری یا کارپٹ پر ہم یونہی مشکلات میں رات بھر سوتے۔
چونکہ میرے والد کیمپ ڈاکٹر تھے تو ان سے کہا گیا کہ وہ مغربی کونے میں اپنا خیمہ لگائیں اور اس میں دو چادروں کو لکڑی کی مدد سے ایک ساتھ باندھیں اور ان پر سرخ رنگ سے ریڈ کراس بنائیں تاکہ دور سے ہی پتا چل جائے کہ یہ ڈاکٹر کا خیمہ ہے۔ کیمپ کے باہر چرچ بھی واقع تھا جہاں ڈیڈی نے ایک عارضی ڈسپنسری قائم کی اور وہ روزانہ چند گھنٹوں کے لیے وہاں جاتے تھے۔
پرویز خان: ہم کالکا کیمپ پر تھے کہ ایک روز نجی سواری پر تین خواتین شملہ سے پہنچیں۔ ایک خاتون زرتشتی (پارسی)، دوسری مسیحی جبکہ تیسری خاتون کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔ وہ اپنے ہمراہ جان بچانے والی ادویات کا ایک بڑا ذخیرہ لے کر آئی تھیں۔ وہ تین بار ایسی ہی اپنے اخراجات سے ادویات لے کر آئیں۔
موت کا سامنا
ریحانہ وحید: 20 اکتوبر کو ہم سے کہا گیا کہ تیاری کرلیں ہم پاکستان جارہے ہیں۔ امی نے قریب ہی کیمپ میں موجود ایک بلتی خاندان سے اسٹیل کا ایک پتیلا لیا (ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ ہماری جان بچائے گا) اور ٹرین کے سفر کے لیے پراٹھے بنائے۔
ہم بہن بھائی خیمے میں موجود تھے اور والدہ پراٹھے بنا رہی تھیں کہ اچانک ہمیں ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ آسمان سرخ اور نارنجی رنگ کا ہوگیا۔ میرا پہلا ردعمل یہی تھا کہ میں بھاگ جاؤں۔ پیٹی بھاگ گیا اور افراتفری میں گم ہوگیا۔ ڈیڈی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے خیمے کے اندر کھینچا۔ امی رو رہی تھیں اور چیخ رہی تھیں کہ ’پیٹی کہاں ہے؟‘ وہ زخمی حالت میں خیمے میں تھیں جبکہ میرا چھوٹا بھائی پپو ان سے لپٹا ہوا تھا۔
یہ حملہ 20 منٹ تک جاری رہا۔ میں سہم کر خیمے کے ایک کونے میں بیٹھی تھی جبکہ میرے سر اور بازو سے خون بہہ رہا تھا۔ بارودی مواد سے میری والدہ کو پیٹ پر زخم آیا جبکہ میرے والد کی پیٹھ زخمی ہوئی۔ اچانک شور اٹھا اور فائرنگ رک گئی۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ قریبی رجمنٹ کا برطانوی کمانڈنگ آفیسر فوری طور پر کالکا کیمپ آیا اور حملہ رکوادیا۔
پرویز خان: ہمیں 21 اکتوبر 1947ء کی صبح پاکستان کے لیے روانہ ہونا تھا۔ ایک روز قبل امی نے میری نیکر کے سرے کو کھولا اور اس میں سو روپے کا نوٹ ڈال کر اسے دوبارہ سی دیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا، ’اگر ہم بچھڑ گئے تو یاد رکھنا کہ تمہارے پاس سو روپے ہیں جو مشکل میں کام آسکتے ہیں‘۔ وہ لمحہ مجھے اکثر یاد آتا ہے اور میں آبدیدہ ہوجاتا ہوں۔
اس وقت میں اپنی والدہ کے دائیں جانب بیٹھا تھا، میری بہن ان کے عقب میں تھی جبکہ میرا چھوٹا بھائی درمیان میں بیٹھا تھا۔ میرے والد اپنے چمڑے کا بیگ کھولے ہوئے تھے اور سامان پیک کرنے میں مصروف تھے۔ اندھیرے کے گہرے سائے چھائے تو میں نے اپنے دائیں جانب 10 فٹ اوپر سفید روشنی دیکھی جو ایک سوکھے نالے سے آرہی تھی جوکہ 30 فٹ دور تھا۔ اس کے بعد انتہائی زوردار دھماکا ہوا جس کی آواز سے کچھ لمحے کے لیے ہماری قوت سماعت ختم ہوگئی۔
میں نالے کی جانب بھاگا اور اس کی جانب بھاگتے ہوئے درمیان میں ایک دو فٹ گہرا گڑھا آتا تھا جہاں میں اکثر کنچے کھیلتا تھا۔ میں ابھی گڑھے سے تھوڑا ہی دور تھا کہ میرے بالکل قریب ہی ایک دھماکا ہوا اور بارودی مواد میری بائیں ران پر لگا اور بہت زیادہ خون بہنے لگا۔ میں آگے بڑھنے کی کوشش میں گڑھے میں گر گیا۔ اس وقت پورا کیمپ ایک جنگ کے میدان کی صورت اختیار کرچکا تھا اور فائرنگ کے ساتھ ساتھ خیموں پر دستی بموں سے حملے کیے جارہے تھے۔ ہر جانب آہ و بکا تھی۔ تقریباً 15 یا 20 فٹ دور میں نے اپنے والد کو دیکھا جو جھکے ہوئے تھے اور چیخ چیخ کر میرا نام پکار رہے تھے۔
اپنی بائیں ٹانگ گھسیٹتے ہوئے میں آہستہ آہستہ اپنے والد کی جانب بڑھنے لگا۔ اس دوران ایک گولی یا بارودی مواد کا ٹکڑا میری بائیں ٹانگ میں سرایت کرگیا۔ لیکن کوشش کرکے میں اپنے والد کے قریب پہنچ گیا اور انہوں نے مجھے خیمے کے اندر کھینچ لیا۔
اس حملے میں تقریباً 60 لوگ مارے گئے۔ اس موقع پر ہماری جان اس اسٹیل کے پتیلے نے بچائی جس نے بارودی مواد کے خلاف ڈھال کا کام کیا۔ ہم بالکل سیدھے لیٹے رہے، ایک جانب سے ہمیں دو چمڑے کے بیگز نے تحفظ دیا اور ہم میں سے کسی نے بھی کوئی آواز نہیں کی جبکہ باہر دھماکے اور فائرنگ جاری رہی۔ صرف والدہ نے بات کی اور میرے والد سے کہا، ’اگر میں مر گئی تو بچوں کو خیال رکھیے گا‘۔
ٹرین کا سفر
ریحانہ وحید: جلد ہی ایک بڑے فوجی ٹرک میں زخمیوں کو سوار کیا گیا اور انہیں قریبی چرچ لے جایا گیا۔ انہیں چرچ کے بینچز پر لٹایا گیا اور کہیں اگلا حملہ نہ ہوجائے اس خوف سے تمام بتیاں بجھا دی گئیں۔ مجھے اب بھی وہ رات یاد ہے جو خون بہنے، زخمیوں اور اپنے پیاروں کو کھو دینے والوں کی دردناک صداؤں کے بعد خاموش ہوچکی تھی۔
پرویز خان: اگلی صبح میری آنکھ کھلی تو میں چرچ کے بینچ پر لیٹا تھا اور میرا جسم پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا۔ لیٹے لیٹے میں نے سر گھما کر اپنی والدہ کو دیکھا جو دو بینچز دور لیٹی تھیں۔ وہ بالکل ساکت تھیں۔ انہیں یوں دیکھ کر میں چیخنے والا تھا کہ اللہ کا شکر کہ انہوں نے حرکت کی۔ وہ اس کے بعد 59 برسوں تک ہمارے ساتھ رہیں۔
ریحانہ وحید: مجھے یاد ہے کہ ریڈ کراس کی ٹیم، چند ڈاکٹرز اور میرے والد (اپنی زخمی پیٹھ کے باوجود) زخمیوں کا علاج کررہے تھے۔ ہم ایک دن اسی چرچ میں رہے۔ اس چرچ کے پادری بہت اچھے تھے، وہ مجھے اور امی کو اپنے گھر لے گئے جو چرچ کے ساتھ ہی واقع تھا جہاں امی نے مجھے نہلایا اور میرے جسم سے خون صاف کیا۔
رات میں ڈیڈی نے پیٹی کو ریلوے اسٹیشن میں ایک بڑی اور اندھیری بوگی میں منتقل کیا۔ اس بوگی میں صرف ایک ہی بوڑھا شخص تھا جو کہ زخمی تھا۔ دروازے پر ایک بڑی ٹوپی والا سپاہی کھڑا تھا اور پیٹی کو بولا گیا کہ وہ گورکھا ہے جو حفاظت کرے گا۔
اگلی صبح ریلوے اسٹیشن پر افراتفری تھی۔ ٹرین میں عوام کا جمِ غفیر سوار تھا۔ لوگ بوگیوں کی چھتوں پر سوار تھے جبکہ کچھ تو چلتی ٹرین کی وجہ سے توازن کھو کر نیچے گر رہے تھے۔
بلآخر ہم پاکستان جا رہے تھے۔ زخمیوں کو خصوصی جگہ دی گئی اور پوری بوگی ہماری تھی۔ پیٹی کی حالت ٹھیک نہیں تھی، اس کا بہت خون بہہ چکا تھا۔ تقریباً پورے راستے وہ برتھ کے اوپر لیٹا رہا جبکہ امی، پپو اور میں برتھ کے نیچے بیٹھے تھے اور غیرآرام دہ ہونے پر باری باری بستر پر لیٹ کر سوجاتے۔
پرویز خان: جب جب ٹرین تیز چلتی، ہم کھڑکی سے لکڑی ہٹا کر باہر جھانکتے۔ ہم نے لاشوں کے انبار دیکھے جنہیں گدھ اور دیگر درندے نوچ رہے تھے۔ پھر کچھ عجیب انداز میں میرے ذہن میں نورجہاں کا گانا بجنے لگا جس کے بول ہیں، ’ آندھیاں غم کی یوں چلیں، باغ اُجڑ کے رہ گیا’۔ میں آج بھی اس گانے کو اسی دردناک منظر سے منسلک کرتا ہوں۔
ریحانہ وحید: ڈیڈی بار بار اٹھ کر دیکھ رہے تھے کہ ہم کہاں تک پہنچے ہیں۔ امرتسر اسٹیشن پر ٹرین چند گھنٹوں کے لیے رکی۔ باہر سے سکھوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم سے کہا گیا کہ ہم ہوا کے لیے بھی کھڑکی نہ کھولیں کیونکہ اندر انتہائی حبس تھا۔ وہ شاید ٹرین میں سب کو مار دینا چاہتے تھے لیکن خوش قسمتی سے ہماری ٹرین دوبارہ چل پڑی اور ہم پر کسی نے حملہ نہیں کیا۔
لیکن ٹرین سست رفتار سے چل رہی تھی اور بار بار رک رہی تھی۔ ایسا لگا کہ بہت وقت گزر گیا لیکن ہم بلآخر پاکستان کی سرحد پر پہنچ گئے۔ جیسے ہی ٹرین رکی، فضا ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ تمام مہاجرین پر موت کی لٹکتی تلوار ایک دم سے غائب ہوگئی۔ بلآخر آزادی ہمیں مل گئی تھی۔ میں اس احساس کو چاہ کر بھی نہیں بھول سکتی۔
پاکستان زندہ باد
واہگہ اسٹیشن پر مہاجرین کے لیے میزیں لگی ہوئی تھیں جہاں گاؤں والوں کی جانب سے بسکٹس، دال روٹی رکھی گئی تھیں۔ کچھ کھانے اور پانی پینے کے بعد ٹرین لاہور کی جانب چل پڑی۔
جب ہم اسٹیشن پہنچے تو ہر سو ’پاکستان زندہ باد‘ اور قائداعظم زندہ باد’ کے نعرے بلند ہورہے تھے۔
اچانک خاموشی چھا گئی۔ ٹرین چل ہی رہی تھی کہ ایک مضطرب شخص نے ٹرین سے اترنے کی کوشش کی۔ لیکن غلط انداز سے اترنے کی وجہ سے وہ ٹرین اور پلیٹ فارم کے بیچ میں کچلا گیا۔ مجھے آج بھی اس شخص کے سفید کپڑے اور ہلکا آسمانی رنگ کا کوٹ یاد ہے جو ٹرین اور پلیٹ فارم کے بیچ میں تھا۔ پاکستان پہنچتے ہی اس کی زندگی ختم ہوچکی تھی۔ ایسے میں کوئی تعجب نہیں تھا کہ ایک دم ہر طرف خاموشی چھا گئی تھی۔
یہ المناک حادثہ اس وقت پیش آیا کہ جب ہم اپنی منزل پر پہنچے ہی تھے۔ امی اور پیٹی کو اسٹریچر جبکہ ڈیڈی، پپو اور میں نے پیدل سفر کیا۔ اسٹیشن کے باہر حکومت کی بسیں موجود تھیں اور وہ ہمیں ایمرجنسی معائنے کے لیے مایو ہسپتال لے گئیں۔
امی اور پیٹی دونوں کے جسم میں بارودی مواد کے ٹکڑے سوکھ کر جم چکے تھے جس کے لیے اگلے دن ان کا آپریشن ہوا۔ دستی بم پھٹنے سے امی کے پیٹ میں بارودی مواد کے ٹکڑے دھنس گئے تھے جبکہ پیٹی کی ٹانگ میں گولیوں کے خول دھنسے تھے۔ ڈیڈی کی پیٹھ پر بھی اسی طرح کا زخم آیا تھا لیکن ان کی کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی تھی۔ میرے کان کے اوپر سر پر لگنے والی چوٹ سے میرا کافی خون بہہ چکا تھا لیکن اندرونی زخم نہیں آیا۔ ہمارے سب سے چھوٹے بھائی پپو کے سر پر خراش آئی تھی۔
علاج کے بعد ہم سے کہا گیا کہ ہم جاسکتے ہیں۔۔۔ لیکن ہم کہاں جاتے؟ ڈیڈی تانگہ لے کر آئے اور ہم اپنی امی کے رشتہ داروں کے ملنے موزانگ چلے گئے۔ آپ اس وقت ہماری خوشی اور خوشگوار حیرت کا تصور نہیں کرسکتے کہ جب ہم گھر میں داخل ہوئے اور میری امی کی پوری فیملی وہاں موجود تھی۔ ہم لوگ زندہ سلامت پاکستان آچکے تھے!
زخموں کی مرہم پٹی کے لیے ہم روزانہ کی بنیاد پر ہسپتال جاتے تھے۔ کچھ دن بعد امی کو بھی ہسپتال سے چھٹی مل گئی لیکن پیٹی کو اپنی صحت اور ٹانگ کی بہتری کے لیے مزید ایک مہینہ ہسپتال میں رکھنے کا مشورہ دیا گیا۔
پاکستان پہنچنے کی ہماری خوشی اس درد اور اذیت سے کئی گنا زیادہ تھی جو ہم نے اپنے ملک آنے کے لیے برداشت کیں۔ پاکستان ایک جادوئی نام تھا، وہ ملک جس کے لیے ہم سب نے دعائیں کی تھیں۔ اس وطن کی تشکیل کے لیے بہت سے لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانی دیں اور ہم خوش قمست ہیں جو زندہ سلامت یہاں پہنچے۔
پرویز خان: میں میو ہسپتال کے مشرقی وارڈ میں تھا، بستر پر بیٹھا کنچے کھیل رہا تھا۔ سورج ڈھل چکا تھا اور باہر رات کی سیاہی چھا رہی تھی۔ وارڈ کے بائیں حصے میں شور ہوا اور میں نے دیکھا کہ قائداعظم محمد علی جناح ہسپتال کے عملے کے ساتھ اندر آرہے تھے۔
وہ آہستہ آہستہ تمام مریضوں کے پاس سے گزرے اور ان سے خیریت دریافت کی۔ پھر میرے بستر کے سامنے آکر رکے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’تمہیں کدھر چوٹ لگی ہے؟‘ میں نے جواب دیا، ’ٹانگ پر‘۔ انہوں نے اپنا سوال دہرایا اور میں نے اپنا جواب۔ جب انہوں نے تیسری بار بھی یہی سوال کیا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ قائداعظم اس جگہ کا نام پوچھ رہے ہیں جہاں تم زخمی ہوئے۔ میں نے جواب دیا، ’شملہ میں کالکا کیمپ پر‘۔
انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا، ’مجھے فخر ہے کہ تمہارے جیسے چھوٹے بچے نے بھی پاکستان کے لیے اپنا خون بہایا ہے‘۔
مجھے بھی خود پر فخر تھا کہ میں نے سنگین بے یقینی کے حالات میں ایسا سفر مکمل کیا جو خطرات سے بھرپور تھا۔ میں پُرامید تھا اور ایک ایسے مستقبل کے لیے کام کرنے کی خواہش سے کار فرما تھا جن سے ان لاکھوں لوگوں کے خوابوں کو تعبیر مل سکے جنہوں نے اس پاک وطن کو بنانے میں جانی قربانیاں دی تھیں۔
لکھاری سے rehanawaheed26@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔لکھاری کوہ پیما ہیں جبکہ اور قدرت میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں جنگل کی فوٹو گرافی میں بھی دلچسپی ہے۔ ان سے pattykhan74@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔