دنیا

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا حسینہ واجد کو وطن واپس لانے پر غور

اگر شیخ حسینہ واجد واپس بنگلہ دیش نہیں آئیں تو ہم عدالتی نظام یا پھر اسپیشل ٹریبونل کے ذریعے ان کی گرفتاری کے لیے اقدامات کریں گے، ناہد اسلام

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں پوسٹل، ٹیلی کمیونی کیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر اور اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمینیشن (ایس اے ڈی) کے مرکزی رہنما ناہد اسلام نے کہا ہے کہ شیخ حسینہ واجد وطن واپس آئیں اور مقدمات کا سامنا کریں۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کو اپنے پہلے انٹریو میں بنگلہ دیشی طلبہ تحریک کے مرکزی رہنما ناہد اسلام نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد ملک سے فرار کیوں ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم کے دور حکومت میں ہونے والی ہلاکتوں پر انصاف چاہتے ہیں اور یہ طلبہ تحریک کا ایک اہم مطالبہ ہے، اور اس حوالے سے ہم اقدامات کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر شیخ حسینہ واجد واپس بنگلہ دیش نہیں آئیں تو ہم عدالتی نظام یا پھر اسپیشل ٹریبونل کے ذریعے ان کی گرفتاری کے لیے اقدامات کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ناہد اسلام نے کہا کہ عبوری حکومت کی ترجیح صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے، تاہم انتخابات سے قبل انتخابی اور آئینی اصلاحات کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ گزشتہ حکومت کے دوران ہونے والی مبینہ کرپشن کی تحقیقات بھی عبوری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔

بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک کے ایک اور رہنما ابو بکر نے ’رائٹرز‘ کو دیے گئے انٹریو میں یہی مطالبہ دہرایا، ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حسینہ واجد واپس وطن آکر مقدمات کا سامنا کریں۔

واضح رہے کہ ناہد اسلام کی قیادت میں بنگلہ دیش میں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا تھا، طلبہ تحریک کا آغاز جون میں ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں عدالت نے سرکاری ملازمتوں سے متعلق کوٹہ سسٹم کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

بنگلہ دیش میں 50 فی صد سے زائد سرکاری ملازمتیں کوٹہ سسٹم کے تحت دی جاتی تھیں جس میں 30 فی صد کوٹہ 1971 میں بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں حصہ لینے والوں کی اولاد کے لیے مختص تھا۔

کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس نے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر 6 طلبہ کی ہلاکت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا۔

اس دوران، حکومت نے ملک بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی، اور متعدد شہروں میں کرفیو نافذ کردیا، مجموعی طور پر ان مظاہروں میں 300 اموات ہوئیں۔

تاہم، طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے آغاز کے پہلے روز تقریباً 100 اموات ہوئی تھیں جس کے بعد وزیراعظم حسینہ واجد مستعفیٰ ہوکر ڈھاکا میں اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت روانہ ہو گئی تھیں۔

وزیر اعظم حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے بعد محمد یونس کو مظاہروں کی قیادت کرنے والے طلبہ کے مطالبے پر عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، ایوان صدر میں ہونے والی تقریب میں بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے ڈاکٹر محمد یونس سے حلف لیا۔

خیال رہے کہ عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر یونس کا عہدہ چیف ایڈوائز کا ہے جو وزیر اعظم کے برابر ہے۔

’آئین کے مطابق حسینہ واجد آج بھی بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہیں‘

اس سے قبل، شیخ حسینہ واجد کے صاحبزادے سجیب واجد جوئی نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری والدہ نے کبھی بھی سرکاری طور پر استعفیٰ نہیں دیا، انہیں ایسا کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی والدہ ایک بیان دینے اور استعفیٰ دینے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پھر مظاہرین نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا اور انہیں ایسا کرنے کا وقت نہیں ملا، میری والدہ کو سامان پیک کرنے تک کا موقع نہیں ملا، جہاں تک آئین کا تعلق ہے تو وہ اب بھی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں۔