دنیا

حسینہ واجد نے دہلی فرار ہونے سے پہلے استعفیٰ نہیں دیا، بیٹے کا انکشاف

میری والدہ کو سامان پیک کرنے تک کا موقع نہیں ملا، جہاں تک آئین کا تعلق ہے تو وہ اب بھی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں، سجیب واجد جوئی

سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے صاحبزادے نے کہا کہ اس ہفتے بھارت فرار ہونے سے قبل ان کی والدہ نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق حسینہ واجد بغاوت کے بعد سے نئی دہلی پناہ لی ہوئی ہیں، اس احتجاج میں تقریباً 300 افراد مارے گئے تھے جن میں بہت سے طالب علم شامل تھے، اور اس کے نتیجے میں 17 کروڑ آبادی کے ملک میں ان کی 15 سال کی مسلسل حکمرانی کا خاتمہ ہوا تھا۔

تاہم حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد جوئی نے ہفتے کو واشنگٹن سے رائٹرز کو بتایا کہ میری والدہ نے کبھی بھی سرکاری طور پر استعفیٰ نہیں دیا، انہیں ایسا کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ ایک بیان دینے اور استعفیٰ دینے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پھر مظاہرین نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا اور انہیں ایسا کرنے کا وقت نہیں ملا، میری والدہ کو سامان پیک کرنے تک کا موقع نہیں ملا، جہاں تک آئین کا تعلق ہے تو وہ اب بھی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ صدر نے فوجی سربراہان اور اپوزیشن سیاست دانوں سے مشاورت کے بعد پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا تھا لیکن وزیر اعظم کے باضابطہ استعفیٰ دیے بغیر نگران حکومت کی تشکیل کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

سجیب واجد جوئی نے یہ بھی بتایا کہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ پارٹی اگلا الیکشن لڑے گی، جس کا ان کے بقول تین ماہ کے اندر اندر ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ عوامی لیگ اقتدار میں آئے گی، اگر نہیں تو ہم اپوزیشن میں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں حزب اختلاف کی مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ اور حسینہ واجد کی دشمن خالدہ ضیا کے حالیہ بیان سے حوصلہ ملا ہے کہ حسینہ واجد کے بھاگنے کے بعد کوئی انتقام کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے محترمہ خالدہ ضیا کا یہ بیان سن کر بہت خوشی ہوئی کہ گزرے ہوئے کو گزر جانے دو، آئیے ماضی کو بھول جائیں، ہمیں انتقام کی سیاست نہیں کرنی چاہیے، ہمیں مل کر کام کرنا ہے، چاہے وہ متحدہ حکومت ہو یا نہ ہو۔

سجیب واجد نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش میں جمہوری انتخابات کرانے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے بی این پی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمارے پاس پرامن جمہوریت ہے جہاں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ میرا ماننا ہے کہ سیاست اور مذاکرات بہت اہم ہیں،ہم بحث کر سکتے ہیں، ہم اختلاف کرنے پر راضی ہو سکتے ہیں اور ہم ہمیشہ ایک سمجھوتہ تلاش کر سکتے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ عوامی لیگ کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے انہوں نے کہا کہ میری والدہ بہرحال اس مدت کے بعد سبکدوش ہونے والی تھیں، اگر پارٹی مجھے چاہتی ہے تو میں اس پر ضرور غور کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ احتجاجی طلبا کے مطالبے کے مطابق وطن واپسی پر مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گرفتاری کی دھمکی نے میری ماں کو پہلے کبھی نہیں ڈرایا، میری والدہ نے کچھ غلط نہیں کیا ہے، صرف اس وجہ سے کہ ان کی حکومت میں لوگوں نے غیر قانونی کام کیے، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ میری والدہ نے ایسے کام کا حکم دیا تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میری والدہ اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ احتجاج کے دوران لوگوں کو گولی مارنے کی اجازت دینے کے لیے حکومت میں کون ذمہ دار ہے؟