خیبرپختونخوا: پی ایم ڈی سی کا میڈیکل کالجز کی انٹری ٹیسٹ فیس کم کرنے سے انکار
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے 22 ستمبر کو ہونے والے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج داخلہ ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) کی فیس میں کمی کی درخواست مسترد کر دی اور اس کی وجہ زیادہ اخراجات بتائی گئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ایم ڈی سی کی رجسٹرار ڈاکٹر شائستہ فیصل نے ڈان کو بتایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر اٹھایا گیا نکتہ درست ہے لیکن میں آپ کو بتاتی چلوں کہ ہم انٹری ٹیسٹ سے کچھ حاصل نہیں کر رہے ہیں، امیدواروں سے وصول کی جانے والی فیس کم سے کم ہے اور اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے، خاص طور پر جب یہ ضلعی سطح پر طلبا کو اضافی سفری اخراجات سے بچانے کے لیے منعقد کیے جاتے ہے۔
6 اگست کو خیبرپختونخوا کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر مینا خان آفریدی نے پی ایم ڈی سی کے صدر ڈاکٹر رضوان تاج کو ایک خط لکھا جس میں ایم ڈی کیٹ فیس میں کمی کی درخواست کی گئی تھی تاکہ غریب امیدواروں کو طبی پیشے میں شامل ہونے کے لیے ٹیسٹ دینے میں مدد کی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ایم ڈی سی نے میڈیکل کالجوں کے داخلہ امتحان کی فیس 6,000 روپے سے بڑھا کر 8,000 روپے کر دی ہے، ہم اعلی معیار کو برقرار رکھنے اور ٹیسٹ کے ضروری اخراجات کو پورا کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
مزید کہا کہ تاہم ہمیں اس زیادہ فیس کے بارے میں شکایات ہیں، ہمیں قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ امیدوار کے ٹیسٹ پر ہونے والے اصل اخراجات 1,500 سے 2,000 روپے کے درمیان ہوتے ہیں۔
وزیر نے اصرار کیا کہ ان کا صوبہ تنازعات اور عدم استحکام کی نہ ختم ہونے والی لہر سے بری طرح متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے کافی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ایم ڈی کیٹ فیس میں اضافہ طلبا پر ایک غیر مناسب مالی بوجھ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے غریب پس منظر سے تعلق رکھنے والے بہت سے ہونہار طلبا کو میڈیسن میں کیریئر بنانے کے لیے ٹیسٹ دینے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پی ایم ڈی سی سے درخواست کرتا ہوں کہ فیس کو کم سے کم سطح تک لے جایا جائے تاکہ غریب طلبا کو امتحان میں بیٹھنے کے قابل بنایا جا سکے۔
مینا آفریدی نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں پی ایم ڈی سی کی مدد نہ صرف بہت سے خاندانوں کے مالی دباؤ کو دور کرے گی بلکہ ایک زیادہ مساوی تعلیمی نظام کی ترقی میں بھی کردار ادا کرے گی۔
انہوں نے خط میں بتایا کہ مجھے امید ہے کہ میڈیکل کی تعلیم کو سب کے لیے قابل رسائی بنانے کے لیے میری درخواست متعلقہ لوگوں تک پہنچ جائے گی۔
پی ڈی ایم سی کے رجسٹرار کے مطابق، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل تمام صوبوں میں ضلعی سطح پر چھ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے ذریعے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج داخلہ ٹیسٹ کا انعقاد کرتا ہے۔
ڈاکٹر شائستہ نے ڈان کو بتایا کہ پچھلے سال، یونیورسٹیاں زیادہ اخراجات کی وجہ سے 6,000 روپے فی طالب علم کی فیس پر ٹیسٹ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی سی نے نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز سے سوالیہ پرچے خریدے جن میں ٹیسٹ کے دوران بہت ساری اسٹیشنری استعمال کی گئی۔
رجسٹرار نے مزید کہا کہ پیپرز بعد میں یونیورسٹیوں کو بھیجے گئے، جبکہ پی ایم ڈی سی کے عملے نے شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے امتحانی ہالز کا دورہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ سفری اخراجات اور ٹیسٹ کے انتظامات کچھ ایسے شعبے ہیں جہاں ہم فی طالب علم تقریباً 8,000 روپے خرچ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شائستہ نے کہا کہ ایم ڈی کیٹ نے کوئی آمدنی وصول نہیں کی، اس میں بیٹھنا طلبا کے لیے اعزاز کی بات ہے، ہم امیدواروں سے کم از کم چارجز وصول کر رہے ہیں۔
پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار نے کہا کہ اگر ہر صوبے میں صرف ایک ایم ڈی کیٹ سینٹر ہو تو اس سے امیدواروں پر زیادہ مالی بوجھ پڑے گا کیونکہ انہیں متعلقہ مراکز تک پہنچنے کے لیے طویل سفر کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم امیدواروں کی سہولت کے لیے ان کے آبائی اضلاع میں ٹیسٹ کا اہتمام کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شائستہ نے کہا کہ پی ایم ڈی سی نے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کے لیے شفاف طریقے سے ٹیسٹ کے انعقاد کے ذریعے معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے اقدامات پر توجہ مرکوز کی ہے۔