پاکستان

وزیراعظم 14 اگست کو نئے اقتصادی منصوبے کا اعلان کریں گے

ذرائع کے مطابق اقتصادی منصوبے کے مندرجات کو یوم آزادی کے بعد اسٹیک ہولڈرز کے ایک بڑے گروپ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف 14 اگست کو ایک اقتصادی منصوبے کا اعلان کریں گے جس میں ریئل ٹائم برآمدات پر مبنی نمو کے بنیادی اصول واضح کیے جائیں گے اور دہائیوں پرانی اقتصادی رکاوٹوں کو دور کرنے پر توجہ دی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ وزیر اعظم کی تشکیل کردہ ٹاسک فورس کے ذریعے تیار کیا گیا جس میں بعد میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں اقتصادی پالیسی کے پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون شامل ہوگئے، مقامی ٹیم نے حقائق کو اکٹھا کیا اور متفقہ دستاویز بنانے کے لیے انہیں پروفیسر کے ساتھ شیئر کیا۔

باوثوق ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’گھریلو ترقی یافتہ اقتصادی منصوبہ‘ کے عنوان سے پالیسی کے مسودے پر آخری میٹنگ ہفتے کو ہوئی تھی اور اب یہ وزیراعظم کو پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔

ذرائع کے مطابق اقتصادی منصوبے کے مندرجات کو یوم آزادی کے بعد اسٹیک ہولڈرز کے ایک بڑے گروپ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

دستاویز کا بنیادی فوکس معاشی لبرلائزیشن، کسی بھی شعبے کو سبسڈی فراہم کرنے میں حکومت کی شمولیت کو ختم کرنا اور مقامی پروڈیوسرز کو دنیا بھر میں مسابقت سے روشناس کرانا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سنبھالنے کے لیے درآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہوگی، اس کے بجائے ملک سے برآمدات بڑھانے پر توجہ دی جائے گی۔

پلاننگ کمیشن کے ایک ذرائع کے مطابق تیار ہونے والی دستاویز نے سابق چیف اکانومسٹ ڈاکٹر محمد احمد زبیر کے کام کو آگے بڑھایا ہے، جنہیں پی ٹی آئی حکومت نے رکھا تھا۔

ایک ذرائع کے مطابق محمد احمد زبیر کے پالیسی بیان میں ان ساختی چیلنجوں کو بھی حل کیا گیا جو اقتصادی پالیسی کی تشکیل میں ترقی اور اشرافیہ کی گرفت میں رکاوٹ ہیں، پالیسی نے ساختی خامیوں کو بھی دور کیا جس کے نتیجے میں خام مال اور نیم تیار شدہ مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، بجائے اس کے کہ وہ اعلیٰ ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس کی طرف مائل ہوں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے عدم اعتماد کے ووٹ میں اپنی حکومت کو برطرف کرنے سے چند روز قبل 3 سالہ نفاذ کے منصوبے کی منظوری دی تھی، منظور شدہ منصوبے میں پالیسی کے اختتام تک برآمدی ہدف 110 ارب ڈالر ہونے کی توقع تھی۔

تاہم پی ڈی ایم حکومت نے اس پالیسی کو لاگو کرنے کی منظوری نہیں دی، ذرائع نے بتایا کہ اس کے بعد نگراں حکومت نے نئی پالیسی کے قیام پر کام شروع کر دیا اور اس کوشش کو وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی جانب سے مزید آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

احسن اقبال نے متعلقہ فریقوں کے ساتھ مل کر پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا، منصوبے پر بحث کے دوران، پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون نے اپریل 2024 میں ڈان میں ایک تحریر لکھی جس میں نئی ​​انتظامیہ کو انڈونیشیا، گھانا، بنگلہ دیش اور بھارت جیسے حالیہ ترقی یافتہ ممالک سے پانچ سبق سیکھنے کا مشورہ دیا۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شہباز نے یہ مضمون پڑھا اور اپنی ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ پروفیسر اسٹیفن کو ملک کے اقتصادی منصوبے کے بارے میں بات چیت میں شامل کریں، انہوں نے سابقہ ​​مجوزہ پالیسی منصوبوں کو ترک کر دیا، جس میں ان کے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا تیار کردہ پلان بھی شامل تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ پاکستان کا یہ پہلا اقتصادی منصوبہ ہو گا، کیونکہ حکومت کے پاس اب صرف بجٹ کی دستاویزات ہیں، یہ دستاویز معیشت کا رخ متعین کرے گی کیونکہ ملک میں کئی دہائیوں سے کوئی اقتصادی منصوبہ نہیں آیا ہے۔

پروفیسر اسٹیفن نے وزارت خزانہ کے بجٹ دستاویزات کو محصولات اور اخراجات کے لیے ایک اسٹریٹجک بلیو پرنٹ کے طور پر حوالہ دیا، بجٹ کی دستاویز برآمدات پر مبنی ہے، درآمدات کا حجم معیشت کی ضروریات سے نمایاں طور پر کم ہےم انہوں نے کہا کہ سمت کی کمی نے معاشی بگاڑ پیدا کیا ہے جس سے برآمدات کم مسابقتی ہیں۔

ماہر اقتصادیات نے درآمدی محصولات، جیسے اضافی کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایکسپورٹ ڈیوٹی کی بھی نشاندہی کی، جو پاکستان کی سست برآمدی نمو کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ وزارت خزانہ کی بجٹ پالیسی خام مال یا نیم تیار شدہ مصنوعات پر ٹیکس لگانے کے لیے تیار ہوئی، جس سے بڑھتے ہوئے شعبوں پر ٹیکس لگا۔

نئے منصوبے میں معیشت کو چلانے یا صنعتوں کو سبسڈی یا اعلی ٹیرف کے تحفظ کے ذریعے مدد کرنے میں حکومت کی کم شرکت پر زور دیا گیا ہے، پالیسی نو لبرل ازم کی پوری روح پر مبنی ہے، جو اوپن کیپیٹل فلو، سرمایہ کاری، اور مارکیٹ سے چلنے والی شرح مبادلہ کی وکالت کرتی ہے۔