پاکستان

اسلامی نظریاتی کونسل کا مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ

وری قوم اس پر پریشان ہے، یہ قانونی تکنیکیات کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان اور محبت کا معاملہ ہے، اعلامیہ

اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) نے مبارک احمد ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے 24 جولائی کے فیصلے میں دی گئی متعدد وجوہات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ججز پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی آئی آئی نے جمعرات کو اپنی میٹنگ کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ پوری قوم اس پر پریشان ہے، یہ قانونی تکنیکیات کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان اور محبت کا معاملہ ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی کی زیر صدارت سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اجلاس منعقد ہوا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سی آئی آئی جلد ہی اس معاملے پر اپنی تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ کو بھیجے گا، انہوں نے مزید بتایا کہ فیصلے کے بہت سے حصے ایسے ہیں جنہیں مذہبی اسکالرز اور سی آئی آئی اسلامی احکامات کی روشنی میں نامناسب سمجھتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ جلد ہی اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گی اور حکومت بالخصوص وزیر اعظم شہباز شریف پر زور دیا کہ وہ اس معاملے میں مؤثر کردار ادا کریں۔

یاد رہے کہ 6 فروری کو، چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے مبارک ثانی کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا، جن پر 2019 میں پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) (ترمیمی) ایکٹ کے تحت ایک جرم کرنے کا الزام تھا۔

اپنے فیصلے میں، عدالت نے نوٹ کیا کہ مدعا علیہ پر جس جرم کا الزام لگایا گیا ہے اسے 2021 تک مجرمانہ قرار نہیں دیا گیا، نتیجتاً، عدالت عظمیٰ نے سزا کو ایک طرف رکھتے ہوئے درخواست گزار کی فوری رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

اس کی وجہ سے چیف جسٹس کے خلاف حکومت اور قانونی برادری کے بقول ایک بد نیتی اور بہتان پر مبنی مہم شروع ہوئی، حتیٰ کہ اس مہم نے سپریم کورٹ کو وضاحت جاری کرنے پر مجبور کردیا۔

اس فیصلے کو بعد میں پنجاب حکومت نے اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ آئین کے آرٹیکل 20 سے متعلق آرڈر کے پیراگراف 9 میں ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ شہریوں کے حقوق جیسا کہ اس شق کے تحت تصور کیا گیا ہے مطلق نہیں بلکہ قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے تابع تھے۔

درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے، سپریم کورٹ نے 24 جولائی کو مبینہ طور پر قرار دیا کہ مذہب اور مذہبی آزادی کا دعویٰ کرنے کا حق جیسے آئین نے یقینی بنایا ہے، قانون، اخلاقیات اور امن عامہ کے تابع ہے۔