بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال کیسی اور عوام کیا کہتے ہیں؟
پاکستان اور بنگلہ دیش کا رشتہ ہی کچھ ایسا ہے کہ وہاں ہونے والی سیاسی ہلچل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کا دایاں بازو رہنے والے ملک، بنگلہ دیش کے عوام نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنا حق لینا جانتے ہیں۔ وہ جیو اور جینے دو کی پالیسی اور بنیادی انسانی حقوق کی طاقت پر یقین رکھتی ہے۔ ایک ماہ تک چلنے والے پُرتشدد ہنگاموں میں تقریباً 300 افراد لقمہ اجل بنے۔
5 اگست کے بعد طلبہ کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ڈاکٹر یونس وطن واپس آ کر سیاسی قیادت کی رہنمائی کریں اور حالیہ پیش رفت میں ڈاکٹر یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔ طلبہ فوج پر واضح کرچکے ہیں کہ سیاسی معاملات میں ان کا کردار کم سے کم ہونا چاہیے۔ فوجی سربراہ وقار الزماں اور صدر بنگلہ دیش محمد شہاب الدین سیاسی جماعتوں اور طلبہ کے وفود کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
حکومت پاکستان نے بھی بنگلہ دیش میں ہونے والی اہم سیاسی تبدیلی پر اپنا مؤقف جاری کیا اور کہا کہ پاکستانی حکومت اور عوام، بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ ہیں۔ امید ہے کہ سیاسی استحکام جلد قائم ہوجائے گا۔
جبکہ شیخ حسینہ کو پناہ دینے اور عوامی لیگ کے قریبی اتحادی تصور کی جانے والی بھارتی حکومت نے 6 اگست کو اپنے ملک میں آل پارٹیز اجلاس کے بعد بھی کوئی واضح مؤقف جاری نہیں کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا ہے ابھی کوئی پالیسی بیان دینا مناسب نہیں، تاہم وہ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
شیخ حسینہ کو آخری وقت تک امید تھی کہ وہ طاقت کے زور پر عوام اور طلبہ کو مزید دبا لیں گی اور ان کا مسلسل چوتھا دور حکومت یونہی چلتا رہے گا۔ 5 اگست کو دنیا نے دیکھا کہ بنگلہ عوام نے اپنے چھینے ہوئے حقوق واپس لینےکے لیے شیخ حسینہ کا تختہ کیسے الٹا اور شیخ حسینہ کو بھارت میں سیاسی پناہ لینا پڑی۔
بھارت شروع سے ہی عوامی لیگ کا قریبی اتحادی رہا ہے۔ شیخ حسینہ کو اپنی طویل حکومت میں فوج اور بھارت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ ان کے دورِ حکومت میں سیاسی مخالفین کو ماورائے عدالت قتل، اغوا اور سیاسی تشدد کی مثال سے یاد رکھا جائے گا۔
پارلیمنٹ تحیل ہوچکی ہے اور اب طلبہ اور عوام کے نشانے پر عوامی لیگ اور ان کی چھاترا جماعت کے ارکین ہیں۔
ڈھاکا سے تعلق رکھنے والے سینئر ڈاکٹر نوید مشتاق کا کہنا ہے کہ ’اب حالات قابو میں ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہے۔ بازار اور دکانیں کھل چکی ہیں اور عوام پُرسکون ہیں۔ اگرچہ اشیائے ضرورت مہنگی ہوگئی تھیں لیکن اب امید ہے کہ سبزی، گوشت اور دیگر اشیا اپنی پرانی قیمتوں پر واپس آجائیں گی۔
’طلبہ نے ذمہ دارانہ انداز میں ٹریفک اور دیگر امور خود سنبھالے۔ ساتھ ہی وہ سڑکوں کی صفائی بھی کر رہے تھے تاکہ مظاہروں کے دوران ہونے ولی تباہی کے اثرات ختم کیے جاسکیں۔ تعلیمی ادارے اور فیکٹریاں بھی کھل چکی ہیں۔ آنے والے دنوں میں پولیس کی ہڑتال بھی ختم ہوجائے گی۔ بنگلہ دیش کی سیاسی فضا بہتر ہورہی ہے۔
’بنگلہ نیشل پارٹی، جماعت اسلامی اور حفاظت اسلام پارٹی میں مذاکرات بھی ہورہے ہیں۔ بنگلہ نیشنل پارٹی کی 78 سالہ سربراہ خالدہ ضیا جو 2018ء سے سیاسی قید جھیل رہی تھیں، انہیں رہائی مل چکی ہے لیکن ان کے معالج پروفیسر ڈاکٹر اے زیڈ ایم زاہد حسین کا کہنا کہ خالدہ ضیا کی صحت ایسی نہیں رہی کہ اب وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں‘۔
پاکستانی ہائی کمیشن ڈھاکا کا کہنا ہے کہ پاکستانی طلبہ محفوظ ہیں۔ ہم نے حالات کے پیش نظر پاکستانی طلبہ و طالبات کو ہائی کمیشن میں رہائش دی ہوئی تھی۔ یہاں کل 44 پاکستانی طلبہ و طالبات موجود تھے جنہوں نے مقامی سیاست پر ابھی کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
پاکستانی طالب علم طاہر حسین کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے کئی دنوں سے پاکستانی ہائی کمیشن میں ہی موجود ہیں کیونکہ جب ہنگامے زیادہ بڑھ گئے تھے، ہمیں یہاں بلا لیا گیا تھا۔ حالات معمول پر آنے کے بعد کئی طلبہ اور طالبات واپس پاکستان جا چکے ہیں لیکن طاہر اور پاکستانی طلبہ کی اکثریت اپنی ڈگری مکمل کرنا چاہتی ہے۔
سارک ایکسچینج پروگرام کے تحت ڈھاکا جانے والے حذیفہ احمد جوکہ سلیم اللہ میڈیکل کالج ڈھاکا کے چوتھے سال کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے ڈان نیوز ڈیجیٹل کو فون پر بتایا کہ وہ پاکستان واپس جارہے تھے اور اسلام آباد میں موجود گھر والوں نے بھی انہیں واپسی کا مشورہ دیا تھا لیکن پرواز منسوخ ہوگئی۔ لیکن اب وہ ڈگری مکمل کرکے واپس آنا چاہتے ہیں۔
امہ ورقہ کہتی ہیں کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ حالات اتنے بگڑ جائیں گے۔ انہوں نے گھر والوں کو مطمئن کردیا ہے کہ وہ ڈھاکا میں محفوظ ہیں۔
Ekhon بنگلہ ٹی وی سے منسلک محقق اور بزنس رپورٹر فیصل کریم کہتے ہیں کہ ’شیخ حسینہ سیاسی رہنما کی حثیت سے تنہا بنگلہ دیش پر حکومت کر رہی تھیں جبکہ دوسری جانب اب خالدہ ضیا سیاسی طور پر متحرک نہیں رہیں۔ بنگلہ دیش مشکل دور سے گزر رہا ہے ایسے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اب مذہبی جماعتیں طاقتور ہوں گی جبکہ بائیں بازو کی جماعتیں اور سول سوسائٹی کا کردار بھی مضبوط ہوگا۔
’بنگلہ دیش میں اب ایک نئی طرز کی حکومت بنتی نظر آرہی ہے کیونکہ مختلف خیالات رکھنے والے سیاسی اور سماجی ذہانت رکھنے والے لوگ سامنے آئیں گے۔ چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ 2008ء میں جیسی عبوری حکومت تشکیل پائی تھی، اب بھی ویسے ہی فوج، سول سوسائٹی، ایڈیٹرز اور پروفیسرز عبوری سیٹ اپ میں شامل ہوں گے۔
’ایک جانب سیاسی منظرنامے میں طلبہ طاقت ور چہرہ بن کر ابھرے ہیں جبکہ دوسری جانب خیال ہے کہ جہاں مذہبی جماعتیں، بائیں بازو کو دوام ملے گا تو وہیں عوامی لیگ کا مخالف گروپ بھی پروان چڑھے گا۔ تاہم عوام خوش ہیں اور سڑکوں پر نکل کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ مگر پولیس لائن پر عوام کے حملے مناسب نہیں۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے حکومتی رٹ قائم کر رہے تھے‘۔
چٹاگانگ میں بنگلہ اخبار کے ایوب کہتے ہیں کہ ’عام لوگ حالیہ پیش رفت کو دوبارہ آزادی ملنے سے تعبیر کررہے ہیں۔ پُرجوش عوام اب بھی ہجوم کی صورت میں سڑکوں پر جمع ہورہے ہیں۔ مٹھائیاں کھلا کر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ عوام پُرامید ہیں کہ نئی نسل اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔ آج کے بنگلہ عوام سب کے لیے آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے طالب ہیں۔ یہ عوامی سوچ کی جیت ہے‘۔
ایوب کا کہنا ہے کہ ’عوامی لیگ نے اپنی سیاست سے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری۔ فی الحال ابھی ان کے لیے حالات مشکل ہیں۔ عوامی لیگ کو دوبارہ قدم جمانے میں بہت وقت لگے گا۔ یہ ایک طویل دور کا خاتمہ ہے جس میں ایک شخص کی حکومت رہی اور سیاسی طاقت کا بےدریغ غلط استعمال کیا گیا۔ بنگلہ عوام اب عوام دوست حکومت چاہتے ہیں‘۔
ٹائم میگزین پرسن 2018ء اور سینئر بنگلہ ایوارڈ یافتہ مصنف اور فوٹوگرافر شاہد عالم کہتے ہیں کہ ’طلبہ کے احتجاج نے شیخ حسینہ کے لیے مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں چھوڑا تھا۔ وہ سیاسی غلطیاں کرتی چلی گئیں اور حالات سمجھنے سے قاصر رہیں۔ یہاں تک کہ افواہوں کا بازار گرم ہونے لگا کہ وہ لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیں گی۔
’ان کے دور میں انتخابی دھاندلی، 3 کروڑ بنگلہ نوجوانوں سے حقِ رائے دہی چھین لیا گیا، انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جانا بھی عروج پر تھا، مہنگائی میں اضافہ ہوا، ناانصافی اور چھاترا لیگ کے خوف نے بھی بنگلہ عوام کو مکمل طور پر دباؤ میں لے لیا۔ اس کے باوجود طلبہ مصر تھے کہ ان کے حقوق سلب نہیں کیے جا سکتے۔ شیخ حسینہ نوجوانوں کے غصے کو سمجھ ہی نہیں سکیں۔
’پولیس کا کردار بھی منصفانہ نہیں تھا۔ انہوں نے صحافیوں پر بھی گولیاں چلائیں۔ ایسی ہنگامی صورت حال بنگلہ دیش میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ سیاست دانوں کو سمجھنا ہوگا کہ عوام سمجھ بوجھ رکھتے ہیں جنہیں دبایا نہیں جا سکتا۔ سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی بالغ بنیں اور ذمہ دارانہ فیصلے کریں‘۔
شاہد عالم نے مؤقف اپنایا کہ ’فوجی سربراہ واقف ہیں کہ وہ شیخ حسینہ کے رشتہ دار ہیں۔ اگر انہوں نے عبوری حکومت کی تشکیل میں مکمل تعاون نہیں کیا تو وہ بھی گھیرے میں آ سکتے ہیں۔ عوام اور طلبہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ جمہوریت چاہتے ہیں اور فوج کا کردار پر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔ شیخ حسینہ تمام سیاستدانوں کے لیے مثال بن چکی ہیں۔
’امید ہے کہ عوامی لیگ اپنی سیاسی غلطیوں سے سبق حاصل کرے گی۔ بنگلہ دیش ایک ایسی زمین ہے جہاں عوام سیاسی شعور رکھتے ہیں جہاں کی تاریخ رہی ہے کہ بنگلہ عوام اپنے حق کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ تبدیلی صرف بنگلہ دیش کے سیاست دانوں کے لیے پیغام نہیں ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے ہے کہ عوامی طاقت کو کمزور نہ سمجھیں اور نہ ہی وہ بے وقوف ہیں‘۔
ڈھاکا ہائی کورٹ میں کام کرنے والی نوجوان بیرسٹر سعدیہ ارمان کہتی ہیں کہ ’عوامی لیگ کا گزشتہ دور کافی مشکل تھا۔ تعلیمی ادروں سمیت تمام محکموں میں عوامی لیگ کی سیاسی مداخلت تھی اور عدلیہ بھی سیاسی فیصلے کررہی تھی۔ ایسے حالات میں لوگ خود کو غیرمحفوظ سمجھتے تھے اور مختلف حلقے بن گئے تھے۔ کافی اچھے وکلا کو کام کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ انہیں پولیس پر حملے اس لیے سمجھ میں آتے ہیں کیونکہ عوام کو انصاف نہیں مل رہا تھا۔ کرنا پھولی سے لے کر چٹاگانگ تک سب جگہ سیاسی دباو واضح محسوس کر رہے تھے‘۔
سداھسوری کالج ڈھاکا کی طالبہ سارہ سینتھیا عالم بھی طلبہ احتجاج کا حصہ رہی ہیں، کہتی ہیں کہ ’حالات 5 اگست کے مقابلے میں بہتر ہو چکے ہیں اور ان میں مزید پہتری آئے گی۔ طلبہ سڑکوں پر موجود ہیں۔ ایمبولینس کے لیے راستے صاف اور ٹریفک رواں دواں ہے۔ ہمیں اپنے طلبہ پر فخر ہے اور یہ ہماری قوم کے لیے فخریہ لمحات ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کل ہمارا بنگلہ دیش زیادہ جمہوری ہوگا جہاں کوئی خوفزدہ نہیں ہوگا۔ ہم ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کے منتظر ہیں‘۔
چٹاگانگ یونیورسٹی کے شعبہ انتھروپولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر سجاد الحق کا اس پورے منظر نامے میں کہنا ہے کہ بنگلہ عوام نے ایک بار اپنی آنکھوں سے طلبہ کی طاقت، سچائی اور بنیادی حقوق کو کامیاب ہوتے دیکھا ہے۔ طلبہ او رتعلیمی اداروں نے ہی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور انسانی حقوق کی جنگ میں پاور ہاؤس کا کام انجام دیا۔ یہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ لوگ وزیراعظم کی قیام گاہ گنوبھابن میں داخل ہوگئے۔ شیخ حسینہ کا بھارت فرار ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اقتدار پر قابض ہونے کی چاہ نے شیخ حسینہ کا اپنے ہی ملک میں رہنا محال کردیا تھا۔ یک جماعتی سیاست کسی بھی ملک کے لیے اچھی نہیں اور اسے صرف خوف اور طاقت سے ہی دوام دیا جاسکتا ہے’۔
لکھنؤ یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے ریٹائرڈ پروفیسر رمیش ڈیکشت کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش نے ایک بڑی سیاسی تبدیلی دیکھی ہے۔ شیخ حسینہ نے سیاسی بالغ ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔ دباؤ والی حکومت یک جماعتی حکومت آخر کب تک چل سکتی ہے۔ بھارت حالیہ صورت حال کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ کافی عرصے سے بھارت اور بنگلہ دیش میں بہت ہم آہنگی تھی جو اب یقینی طور پر نہیں رہے گی۔ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن عوامی لیگ کے بعد وہاں مذہبی جماعتیں مضبوط ہوں گی جن سے بھارت خطرہ محسوس کرتا ہے۔
پروفیسر رمیش حالیہ منظر نامے میں طلبہ کی قوت کے ساتھ مذہبی رجحان رکھنے والوں کی فعالیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
جامعہ کراچی کی سماجی علوم کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر شائستہ کا کہنا ہے کہ ’حد سے زیادہ حکومتی کنٹرول نے عوام کو اس اقدام کے لیے اکسایا۔ طلبہ کا احتجاج ایک لاوا بن کر شیخ حسینہ کی حکومت پر گرا۔ دوسری چیز یہ بھی تھی کہ جس طرح جماعت اسلامی اور ان کی طلبہ تنظیم پر پابندی لگی، اس سے دیگر سیاسی جماعتیں بھی سمجھ رہی تھیں کہ وہ بھی سیاسی جبر کا شکار ہو جائیں گی۔
’معاشی ترقی اور انسانی ترقی کی باتیں تھیں لیکن سیاسی گھٹن کا شکار ہوکر وہی ملک جس کا شمار دنیا کی تیز ترین ترقی کرتی معیشتوں میں ہورہا تھا، ایک ماہ سے فسادات میں گھرا ہوا ہے یعنی شیخ حسینہ کی معاشی حکمت عملی کو ان کا ہی سیاسی ماڈل لے ڈوبا۔ مخالف سوچ کو مکمل طور پر دبا دینے کی پالیسی نے ہی آخر کا انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
ڈاکٹر شائستہ کے خیال میں ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ فوج میں بھی کچھ عرصے سے شیخ حسینہ کی پالیسیز پر اختلاف بڑھ رہا تھا۔ اسی لیے فوج نے انہیں باہر نکلنے کا راستہ دیتے ہوئے مزید ان کا ساتھ نہیں دیا۔ ہم ایک ماہ پہلے تک کہہ رہے تھے کہ بنگلہ دیش ایشیا کا معاشی حب ہے لیکن وہی ملک آج سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ لہٰذا آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقتدار کی سیاست میں بھی جہاں عوام کو معاشی آزادی چاہیے وہیں سماجی اور مذہبی آزادی بھی ضروری ہے ورنہ انارکی پھیلتی ہے۔
جامعہ کراچی کے سابق ڈین اور بنگہ دیش کی سیاست کے ماہر ڈاکٹر مونس احمر کا کہنا ہے کہ ’16 سالہ حکومت کا خاتمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بدعنوانی اقربا پروری زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ بنگلہ دیشی فوج نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ ان کے سامنے دو راستے تھے کہ ہنگاموں کو چلنے دیتے یا شیخ حسینہ کو بیرونِ ملک جانے کا محفوظ راستہ دے دیا جائے۔ یہاں فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ مسائل کے حل کی طرف جائیں گے۔ گرفتاریاں ختم کی جائیں گی۔
’ایک ٹیکنوکریٹ کی لسٹ جاری کی گئی ہے جس میں 3 ریٹائرڈ جنرلز اور پروفیسرز اور دیگر پروفیشنل شامل ہیں۔ طلبہ کو صدر کی حمایت بھی حاصل ہے۔ بنگلہ دیش میں اب ایک نیا بحران کھڑا ہوچکا ہے۔ طلبہ جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ فوج جانتی ہے کہ طلبہ مارشل لا قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی لمبے عرصے تک چلنے والی عبوری حکومت کو تسلیم کریں گے۔ اب فوج کی ذمہ داری ہے کہ اکتوبر تک بنگلہ دیش میں عام انتخابات کروا کر وہ بیرکوں تک چلے جائیں۔
’شفاف انتخابات سے آنے والی نئی حکومت ہی بنگلہ دیش کے حق میں مثبت ثابت ہوگی۔ اگر شیخ حسینہ کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی کوشش کی گئی تو بنگلہ دیش لمبے عرصے کے لیے بحران کا شکار ہو جائے گا۔ منطق اسی میں ہے کہ عوامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
’اگر عوامی لیگ کی جڑیں عوام میں ہوتیں تو شیخ حسینہ یوں فرار نہ ہوتیں بلکہ مقابلہ کرتیں اور کہتیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ عوامی لیگ کا سیاسی مستقبل کیا رہے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ انقلابی طلبہ ایک طرف پُر جوش ہیں لیکن سیاسی استحکام بہتر بنگلہ کے لیے ضروری ہے‘۔
توقع ہے کہ آج بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں آجائے گا۔ ڈاکٹر یونس بنگلہ دیش واپس آچکے ہیں اور وہ حکومت سازی میں معاون کا کردار ادا کریں گے۔ عوام اور طلبہ کو ان پر مکمل اعتماد ہے۔
آخری نقطہ یہ کہ 1954ء میں سات طلبہ کی ہلاکت پر بنگال کے عوام نے علیحدگی کی تحریک چلا دی تھی۔ اب اسی پارٹی کی حکومت نے 150 نہیں بلکہ اپنے ہی 500 طلبہ کو ہلاک کردیا۔ ہمارے خطے کو سمجھنا ہوگا کہ سیاست کی جڑیں عوام میں نہیں رہتیں تو تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی بن جاتی ہے۔ اصل طاقت عوام ہیں اور ان کی آواز کو دبایا جائے گا وہ مزاحمت کریں گے۔
سیاست ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کا نام ہے۔ اگر عوام ہی نظر انداز ہوجائیں گے تو پھر وہی صورت حال ہوگی جوکہ دنیا کے تیز ترین معاشی حب میں شمار کیے جانے والے آفت زدہ بنگلہ دیش میں ہم نے دیکھی۔
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔