کیا پاکستان میں بنگلہ دیش کی طرح ’انقلاب‘ آسکتا ہے؟
سال 2013ء میں عالمی بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ بنگلہ دیش ’اگلا چین‘ بن سکتا ہے۔ بینک نے یہ امکان بنگلہ دیش کی دیگر ممالک کے مقابلے میں اچھے اقتصادی اور آبادیاتی شماریات کی بنیاد پر ظاہر کیا تھا جبکہ دوسری جانب بنگلہ دیش نے چین جیسے آمرانہ طرزِ حکمرانی کو اپنانے کی کافی حد تک کوشش کی لیکن وہ اس پر مؤثر انداز میں عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے۔
عالمی بینک کی اس پیش گوئی کو ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا اور اس دوران جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بنگلہ دیش نے معاشی اور سماجی محاذ پر سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کی، اس نے بھارت اور پاکستان دونوں کو اس دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا۔
جہاں تیزی سے ترقی کرتے بنگلہ دیش کے معاشی اور سماجی پہلوؤں پر تبصرے کیے گئے وہیں بہت سے غیرمعاشی پہلوؤں پر آنکھیں بھی بند کرلی گئیں۔
2004ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دعوے کررہی تھی کہ ان کے دور میں بھارت نے ریکارڈ معاشی ترقی کی لیکن اس کے باوجود وہ انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئی۔ اسی طرح 2024ء کے عام انتخابات کے حوالے سے بھی گمان تھا کہ نریندر مودی کے معاشی معجزے کی وجہ سے بی جے پی دو تہائی اکثریت لے گی لیکن وہ 400 سے زائد نشستیں جیتنے میں ناکام رہے۔ اس سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سماجی پہلوؤں اور دیگر خدشات کو بالائے طاق رکھ کر معیشت کے بل پر محض ’کامیابی‘ ہی مل سکتی ہے۔
بنگلہ دیش کا ترقیاتی ماڈل پہلے بھی بارہا تعلیمی اور پالیسی ساز حلقوں میں زیرِ بحث آچکا ہے لیکن اب بھی اس میں بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں آزادی کے وقت آبادی میں اضافے کی شرح 2.5 فیصد تھی جسے کم کرکے اسے ایک فیصد تک لایا گیا۔ آج بنگلہ دیش دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی آبادی، مغربی پاکستان سے زیادہ تھی لیکن آج آبادی کی تیز ترین شرح نمو (2.55 فیصد) کے ساتھ پاکستان کا شمار سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں کیا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں پاکستان میں معیشت کے ساتھ ساتھ فی کس آمدنی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے لیکن کم از کم ہم زیادہ آبادی والے ممالک میں سب سے آگے ہونے پر فخر ضرور کرسکتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے ترقیاتی ماڈل کی کامیابی کے پیچھے سب سے اہم وجہ سماجی اور اقتصادی شعبہ جات میں خواتین کا اہم اور بنیادی کردار ہے۔ خواتین میں زیادہ شرح خواندگی اور تعلیم یافتہ خواتین کی افرادی قوت کی بدولت دو طرح کے نتائج سامنے آئے۔ ایک تو توقع کے مطابق خواتین خودمختار ہوجاتی ہیں اور وہ اپنے والد، بھائی، بیٹے یا خاوند پر انحصار کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔
مردوں کے مقابلے میں کم آمدنی کے باوجود خواتین خودمختار ہوتی ہیں اور انہیں اقتصادی اور سماجی طاقت بھی حاصل ہوتی ہے۔ افرادی قوت میں خواتین بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے نہ صرف اقتصادی سلامتی کا حصول ممکن ہوتا ہے بلکہ سب سے اہم یہ ہے کہ خواتین کا طبقہ مستحکم اور کامیاب بھی ہوتا ہے۔
خواتین کی بڑھتی افرادی قوت سے ایک اور نتیجہ سامنے آیا اور وہ یہ تھا جب خواتین معاشی طور پر خودمختار ہوگئیں تو وہ شادی میں بھی تاخیر کرنے لگیں جس کی وجہ سے بچوں کی پیدائش میں بھی کمی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ مانع حمل ادویات کے حوالے سے آگاہی نے بھی بنگلہ دیش کی آبادی میں نمایاں کمی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
مزید یہ کہ بنگلہ دیش میں خواتین کا شرح خواندگی 76 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 48 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش میں تعلیم یافتہ خواتین جو خود کماتی ہیں، وہ ایسے خاوند کا انتخاب کرتی ہیں جو نہ صرف ان سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو بلکہ وہ مالی طور پر بھی ان سے زیادہ مستحکم ہو۔ یہ عناصر بچوں کی تربیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
یہ بھی گمان کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ عالمی مائیکرو فنانس انقلاب کا آغاز گرامین بینک سے ہوا تھا، اس نے بھی خواتین پر خصوصی توجہ دی تھی اور انہیں خودمختار بننے کے مواقع فراہم کیے تھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں خواتین کا طبقہ سب سے اہم ستون ہے۔
’اگلے چین‘ بننے کی پیش گوئی بھی اس وقت کی گئی تھی کہ جب بنگلہ دیش دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ کپڑوں کا برآمدی ملک بنا۔ اس میں بھی تعلیم یافتہ خواتین کی افرادی قوت کا اہم کردار ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدات 60 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے جن میں سے تیار شدہ کپڑوں کا 44 ارب ڈالرز حصہ ہے۔ پاکستان جوکہ دنیا میں سب سے زیادہ برآمدات کرنے والا پانچواں ملک ہے، ہماری برآمدات صرف 32 ارب ڈالرز ہیں۔
بنگلہ دیش ماڈل کے دو دیگر پہلو بھی قابلِ ذکر ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ بنگلہ دیش نے آزادی حاصل کرنے کے بعد آئینی بنیادوں پر سیکیولر بننے کا فیصلہ کیا حالانکہ ریاست اور معاشرے بہت سے معاملات میں ایک صفحے پر نہیں تھے۔ لیکن اس کے باوجود بنگلہ دیش کی حکومت نے ریاستی سطح پر کسی ایک مذہب کی اطاعت نہ کرنے کا انتخاب کیا۔
اگرچہ بنگلہ دیش کے ایک فوجی آمر نے سیکیولرازم کو آئین سے حذف کردیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے آمر کے اس اقدام کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا اور ریاست کے اہم ستون کے طور پر سیکیولرازم کو بحال کردیا۔
دوسرا پہلو فوجی بغاوتوں اور متعدد مارشل لا کے بعد منتخب پارلیمان نے ملٹری کے کردار کو محدود کردیا اور انہیں منتخب نمائندگان کے تابع بنایا۔
لیکن بنگلہ دیش ماڈل کی کامیابی نے بہت سے تضادات کو بھی جنم دیا جیسے شہرکاری میں اضافہ ہوا، تعلیم یافتہ متوسط طبقے کو غیرمساوی معاشی سلامتی کے حوالے سے تحفظات ہونے لگے اور انہوں نے شہریت اور شرکت کے مواقع میں شفافیت اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
رانا پلازا کا انہدام جس میں ایک ہزار 134 افراد جان سے گئے اور اس جیسے واقعات نے بدعنوانی کو بےنقاب کیا جو تیسری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ تھے۔
شاہ باغ تحریک میں سیکیولرز پر چاقو سے حملے کیے گئے جبکہ بنگلہ دیش ماڈل کے مختلف پہلوؤں پر ناانصافی پر ردعمل بھی دیا گیا جنہیں شاذ و نادر ہی اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر یک جماعتی آمرانہ ریاست کو نظرانداز کردیا جاتا جہاں اپوزیشن نہیں اور مخالفت میں اٹھنے والی دیگر آوازوں کا ریاستی ادارے گلا گھونٹ دیتے تھے۔
بنگلہ دیش، ملائیشیا یا بالخصوص چین، کسی بھی ترقیاتی ماڈل کو مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا اور ان کی نقالی نہیں کی جاسکتی۔ ہر ماڈل کی اپنی خصوصیات اور شرائط ہیں جن کے لیے گہری سمجھ بوجھ اور عمل درآمد کی تفہیم کی ضرورت ہے۔ ایسا کوئی عالم گیر منصوبہ نہیں جو دنیا کے ہر ملک پر نافذ ہوسکے اور انقلاب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔
بہت سے پاکستانی بنگلہ دیش کے ڈرامائی انقلاب کا جشن منا رہے ہیں اور یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ یہ ’ہمارے‘ ساتھ کب ہوگا اور مسلط قوتوں سے ہمیں نجات کب اور کیسے ملے گی؟۔ یہ سب سوچنے سے قبل ہمیں ایک لمحے کو رک کر ان لاتعداد عناصر پر نظر ڈالنی چاہیے جن کی وجہ سے ہر انقلاب ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔
کچھ لوگ عرب بہار کو مثالی انقلابی ڈھانچہ قرار دیتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک آمر کی جگہ دوسرے آمر نے لی تھی یا ممالک کو مافیاز نے اپنے قبضے میں لے لیا جسے ہر گز حقیقی طور پر بہتری تصور نہیں کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش میں سیاسی منظرنامے میں ایک اہم کردار کے طور پر فوج کے ابھرنے کو جمہوریت کے لیے منفی معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔
تاہم جابرانہ قوتوں کے خلاف مزاحمت کو ہر پیمانے پر اپنانا چاہیے۔ بالخصوص پاکستان کہ جہاں دو صوبوں میں عوامی اطمینان اور مظاہروں کو دبایا جارہا ہے، ایسے میں ملک کو اندرونی سیاست اور اقتصادی معاملات میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔