پاکستان

ہٹ اینڈ رن کیس: سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی کی ضمانت منظور

سپریم کورٹ کے جج جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی بیٹی شانزے ملک ہٹ اینڈ رن کیس میں 2 سال سے زیادہ عرصے تک مفرور رہنے کے بعد عدالت میں پیش ہوگئیں۔

اسلام آباد کے ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نے سڑک حادثے میں 2 شہریوں کی ہلاکت کے کیس میں سپریم کورٹ کے ایک جج کی بیٹی کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی جب کہ 2 سال سے زیادہ عرصے تک مفرور رہنے کے بعد خاتون عدالت میں پیش ہوگئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ کامران ظہیر عباسی نے سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی بیٹی شانزے ملک کی ہٹ اینڈ رن کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی، درخواست میں اسلام آباد کے پولیس تھانہ کھنہ میں درج ایف آئی آر کے سلسلے میں ضمانت قبل از گرفتاری کی استدعا کی گئی ہے۔

خاتون کے وکیل محمد صدیق اعوان نے عدالت میں استدلال کیا کہ ان کی مؤکلہ کو شکایت کنندہ اور پولیس نے درخواست گزار کے اہل خانہ کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کے لیے بد نیتی کی بنیاد پر مذموم مقاصد کے لیے کیس میں پھنسایا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پولیس نے شانزے ملک کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی)کی دفعہ 322( تیز رفتاری یا غفلت کے ساتھ گاڑی چلانے سے متعلق) کا اطلاق کیا ہے جو کہ قابل ضمانت ہے، ان کے پاس قابل استعمال قانونی ڈرائیونگ لائسنس ہے، جب کہ اس صورت میں پی پی سی کی متعلقہ دفعہ 320 ہے(بلا ارادہ قتل کا سبب) جو کہ قابل ضمانت جرم ہے۔

اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر رانا حسان عباس نے ان دلائل کی مخالفت کی اور عدالت سے درخواست ضمانت مسترد کرنے کی استدعا کی۔

جج نے ریمارکس دیے کہ کیونکہ درخواست گزار کے پاس ٹھیک ڈرائیونگ لائسنس ہے، اس لیے ان کے خلاف وہ دفعہ نہیں لگائی جاسکتی جس کا مقدمے میں اندراج کیا گیا۔

اس کے بعد جج نے مقدمے سے پی پی سی کی سیکشن 322 کو دفعہ 320 کے ساتھ تبدیل کردیا، انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ چارج شیٹ سے دفعہ 322 کو حذف کے بعد شانزا ملک ضمانت پر رہائی کی حقدار ہیں۔

جج نے 30 ہزار روپوں کے مچلکوں کے عوض شانزا ملک کو ضمانت دے دی، وکیل نے مؤکلہ کے خلاف جاری نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی بھی استدعا کی۔

جج نے نوٹ کیا کہ کیونکہ درخواست کو کوئی سمن جاری کیے جانے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، نہ ہی ایسا کوئی اشارہ ہے کہ کیس کے اندراج کے بعد 2 سال کا عرصہ گرنے کے بعد بھی درخواست گزار کو اس مقدمے میں ملوث قرار دیا گیا ہو، جج نے قرار دیا کہ کیونکہ درخواست عدالت کے سامنے پیش کی گئی ہے، اس لیے قابل ضمانت وارنٹ منسوخ ہو چکے ہیں۔

یاد رہے کہ 8 جون 2022 کو شہری شکیل تنولی اور اس کے ساتھی حسنین علی جو دونوں ایک نجی ریسٹورنٹ میں ویٹر تھے، آدھی رات کو گھر جا رہے تھے کہ انہیں اسپورٹس یوٹیلیٹی وہیکل (ایس یو وی) نے ٹکر ماری، گاڑی کو مبینہ طور پر ایک خاتون چلا رہی تھی۔

تفصیلات کے مطابق خاتون گاڑی موقع پر چھوڑ کر موقع سے فرار ہو گئی، پولیس نے گاڑی کو تحویل میں لے لیا، تاہم لاہور ہائی کورٹ کے ایک عہدیدار نے قبضے میں لی گئی گاڑی سپر ڈاری پر واپس کردی۔

حادثے کے ایک متوفی شکیل تنولی کے والد علی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ ملزم اور حادثے کے دوسرے متوفی حسنین کے ورثا نے معاملہ عدالت سے باہر طے کرلیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ ملزم کے اہل خانہ ضلع مانسہرہ میں اس کے گھر بھی آئے اور دھمکی دی کہ اگر اس نے کیس کی پیروی کی تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ پولیس اس معاملے کی تفتیش کرنے کی ہدایت جاری کی جائے اور ملزم کے خلاف دفعہ 279 (تیز رفتاری اور لاپرواہی سے گاڑی چلانا) اور 322 (بغیر ارادہ قتل) کے تحت کارروائی کی جائے۔