نقطہ نظر

’غیر مسلم ہونے کے باوجود ریاست نے مجھے میرے حق سے محروم نہیں کیا‘

دیپ کہتی ہیں، ' آج تک میرے خاندان میں کوئی یقین نہیں کرتا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے کے باوجود مجھے میرٹ پر سرکاری ملازمت ملی'۔

دیپ کرن راجانی، سول ایوی ایشن اتھارٹی پاکستان میں سینئر ڈپٹی ڈائریکٹر (ہیومن ریسورسز) کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہیں اور میرٹ کی بہ دولت اس مقام تک پہنچی ہیں۔

دیپ کرن نے این ٹی ایس کے امتحان میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی تھی۔ انہوں نے 2021ء میں سخت مسابقت کے بعد ’ہمفری اسکالرشپ‘ بھی حاصل کی اور امریکا جاکر فیلوشپ مکمل کی۔ انہوں نے شادی شدہ گھریلو زندگی کے باوجود اپنے کریئر میں کامیابیاں حاصل کیں۔

دیپ کرن راجانی نے اقلیتی برادری سے تعلق کی بنیاد پر معاشرتی چیلنجز اور اپنی کامیابی سے متعلق ڈان نیوز ڈیجیٹل سے گفتگو کی۔


’اچھے کرموں کا پھل‘


دیپ کرن کہتی ہیں کہ ’میں سوچتی ہوں کہ میں نے اچھے کرم کیے ہوں گے یا کسی کی دعائیں ہیں جن کی بدولت مجھے بہترین کریئر اور مواقع میسر آئے کیوں کہ میں اپنے اردگرد دیکھتی ہوں تو ہماری مسلم برادری کو بھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ وہ بھی ملازمت، روزگار اور تعلیم کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہوئے پریشان ہیں۔

’میں جب ہمفری فیلو شپ کے سلسلے میں امریکا میں تھی تو وہاں ہماری ایک ساتھی کا تعلق بھارت سے تھا، انہیں جب معلوم ہوا کہ میں پاکستان سے ہوں اور ہندو ہوں تو وہ مجھے کہنے لگیں کہ آپ وہاں پاکستان میں کیا کر رہی ہیں، وہاں تو غیر مسلم برادریوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا، آپ بھارت آجائیں‘۔ میں نے ان سے کہا کہ نہیں ہم پاکستان میں خوش ہیں’۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں نے اپنی محنت کے بل پر میرٹ پر معاشرے میں جگہ حاصل کی ہے۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ میرے بہن بھائیوں نے بھی اسی طرح کامیابی حاصل کی۔


’افسری کا شوق اور ’ڈان ینگ ورلڈ‘


دیپ کرن نے 11 سال قبل اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر کی حیثیت سے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔

انہوں نے گلشن کیمبرج اسکول سے میٹرک، سینٹ جوزف کالج سے بی اے جبکہ بحریہ یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ سول ایوی ایشن میں ملازمت سے پہلے وہ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس منیجمنٹ (آئی او بی ایم) میں لیکچرار کی ذمہ داریاں بھی ادا کرچکی ہیں۔

دیپ کرن بتاتی ہیں کہ ’میں جب اپنی پہلی نوکری کے لیے انٹرویو دینے گئی تو وہاں کئی سفید بالوں والے سینئر پروفیسرز بھی انٹرویو کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میں دل میں سوچ رہی تھی کہ مجھے ان کے مقابلے میں ملازمت نہیں مل سکے گی لیکن میں پینل انٹرویو میں منتخب ہوگئی۔ میں نے تین سال وہاں لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا لیکن مجھے سرکاری افسر بننے کا شوق تھا۔ میں جب میٹرک میں تھی تب اپنی امی سے کہتی تھی کہ میں افسر بنوں گی۔ میں ’ڈان ینگ ورلڈ ’ بہت شوق سے پڑھتی تھی اور اس سے متاثر ہوتی تھی‘۔

میں نے ایک مرتبہ اس میگزین میں یہ قول پڑھا اور اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیا Be like a’ diamond, precious and rare, Not like a stone that found everywhere’(ہیرے کی طرح نایاب اور قیمتی بنیں، پتھر کی طرح نہیں بنیں جو ہر جگہ مل جاتا ہے)

وہ بتاتی ہیں، ’یہ قول اب بھی میری زندگی کا حصہ ہے‘۔


’اسلام قبول کرنے کا مشورہ‘


دیپ کرن نے کہا مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہوئے یا دورانِ ملازمت انہیں غیر مسلم ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا تو نہیں رہا لیکن کچھ مسلم دوست انہیں مشورہ دیتی تھیں کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔

دیپ کے نزدیک، ’یہ خود ہم پر بھی منحصر ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ کتنا گھل مل سکتے ہیں۔ میں اپنی مسلم دوستوں کی مذہبی روایات کا احترام کرتی تھی جیسے اگر ان کے روزے ہوتے تھے تو میں بھی ان کے سامنے کچھ کھانے پینے سے گریز کرتی تھی۔


’ملازمت ملنے پر کسی کو یقین نہیں تھا‘


دیپ بتاتی ہیں کہ انہیں کارپوریٹ سیکٹر میں نوکری کرنے کا شوق تھا، اس لیے وہ لیکچرار شپ کے دوران بھی ملازمتوں کے اشتہار دیکھتی رہتی تھیں۔

کہتی ہیں، ’پاکستان سول ایوی ایشن کی آسامی کا اشتہار دیکھا تو میں نے ٹھان لی کہ اپلائی کرنا ہے۔ مجھے سب جاننے والے کہہ رہے تھے کہ سرکاری نوکری ہے آپ کو سفارش کے بغیر نہیں ملے گی کیونکہ ان میں عام لوگ شارٹ لسٹ نہیں ہوتے۔ لیکن میں نے اس کے باوجود اپلائی کیا اور مجھے این ٹی ایس کے ٹیسٹ کے لیے لیٹر بھی آگیا۔

’اس وقت میرے ہاں پہلی بیٹی کی پیدائش متوقع تھی۔ میں نے خوب تیاری کرکے ٹیسٹ دیا۔ نتیجہ آیا تو دیہی سندھ/مٹھی/تھر پارکر سے میری ٹاپ پوزیشن تھی۔ وفاق کی اس اتھارٹی میں سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں کا کوٹہ ہوتا ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم سب کو یکساں مواقع میسر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے انٹرویو کی کال آئی اور میں اس میں بھی کامیاب ہوگئی۔ یوں سول ایوی ایشن اتھارٹی میں میرا بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر تقرر ہوا‘۔


’امریکا میں فیلوشپ تک رسائی‘


دیپ کرن نے بتایا کہ ’میری دلی خواہش تھی کہ میں امریکا سے تعلیم حاصل کروں مگر والد صاحب کہتے تھے کہ جو کرنا چاہتی ہو شادی کے بعد کرنا۔ میری شادی ہوگئی لیکن میں اپنے خواب سے دستبردار نہیں ہوئی۔ میں انٹرنیٹ پر امریکا میں تعلیم کے مختلف مواقع کی تلاش میں رہی۔ فیس بک پر دیکھا کہ فل برائٹ ایکسچینج پروگرام کے تحت ہربرٹ ایچ ہمفری فیلوشپ کے لیے درخواستیں طلب کی جارہی ہیں، میں نے اپلائی کیا لیکن میں منتخب نہیں ہوئی۔

’2020ء میں جب یہ فیلوشپ دوبارہ آئی تو میں نے پھر اپلائی کیا اور میں منتخب ہوگئی۔ اس وقت میری دوسری بیٹی چھ ماہ کی تھی اور بچوں کے ساتھ امریکا جانا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس دوران کورونا وبا بھی آچکی تھی تو سب لوگ ہمیں منع کررہے تھے کہ میں امریکا نہیں جاؤں مگر میں اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ اس وقت میرے شوہر نے بہت ساتھ دیا۔ وہ اپنی جاب چھوڑ کر میرے ساتھ بچوں کو لے کر امریکا گئے۔ میں یہ کہوں گی کہ اگر میرے شوہر تعاون نہ کرتے تو یہ فیلوشپ کرپانا میرے لیے ناممکن تھا‘۔


’امریکا میں ٹیلنٹ کی قدر‘


دیپ کرن امریکا میں تعلیم و تربیت کے موقع کو اپنی زندگی کا یادگار تجربہ قرار دیتی ہیں جس نے ان کی زندگی اور کریئر پر بہترین اثرات مرتب کیے۔

انہوں نے کہا کہ ’امریکا جاتے ہوئے ہم پریشان تھے کہ چھوٹے بچے ساتھ ہیں، معلوم نہیں کس طرح وہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ کریں گے لیکن وہاں کا تمام اسٹاف تعاون کرنے والا تھا۔ ہر کسی کی کوشش تھی کہ مجھے فیلوشپ مکمل کرنے کی سہولت فراہم کریں۔ ہم نے مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں چار ماہ گزارے اور وہاں ہمیں اتنی اپنائیت ملی کہ محسوس نہیں ہوا ہم کسی انجان ملک میں ہیں‘۔

دیپ کرن بتاتی ہیں، ’مجھے ہیومن ریسورسز (ایچ آر) میں ایک اضافی سرٹیفکیٹ کورس کرنا تھا جس کی فیس دو ہزار 700 ڈالرز تھی جبکہ ہمارا مجموعی فنڈ دو ہزار 500 ڈالرز تھا۔ میں نے اپنی مینٹور جولی سے کورس کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا میں تمہیں کورس انچارج کے پاس لے جاتی ہوں ان سے بات کرکے دیکھتے ہیں۔ ٹینا اس شعبے کی انچارج تھیں انہوں نے میرا تعلیمی ریکارڈ دیکھا اور تعریف کرتے ہوئے پوچھنے لگیں کہ اچھا بتاؤں آپ اس کورس کے لیے کتنے پیسے دے سکتی ہو، میں سوچ میں پڑ گئی پھر کہا کہ میڈم آپ ہی بتا دیجیے۔

’انہوں نے کہا یہ بتاؤ کہ پینتیس ڈالر دے سکتی ہو یہ سن کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اور میں نے کہا کہ بالکل یہ رقم تو میں دے سکتی ہوں۔ انہوں نے مجھے ایک لنک بھیج دیا جس کے ذریعے مجھے میری سوچ سے بڑھ کر رعایت مل گئی۔ اسی طرح ایک اور ٹریننگ جو 900 ڈالرز کی تھی وہ بھی مجھے 27 ڈالرز میں فراہم کر دی گئی‘۔

’اس ٹریننگ کے بعد جب میں واپس آئی تو یہاں اپنے شعبے میں بھی میں نے وہی پریکٹس کی جو امریکا میں سیکھی تھی۔ ہم نے اپنے اسٹاف کی بہت سی ٹریننگز کروائیں اور اس بات پر توجہ دی کہ پیپر ورک سے وہ سوفٹ ویئر پر آجائیں۔ اس کے علاوہ میں اپنے اسٹاف اور دوستوں کو یہ بھی تحریک دیتی ہوں کہ بیرون ملک تربیت کے مواقع ضرور حاصل کرنے کی کوشش کریں اس سے ہم پاکستان میں بہتری لا سکتے ہیں‘۔


’امریکا اور پاکستان کی خواتین افرادی قوت‘


دیپ کرن نے کام کرنے والے خودمختار خواتین کے مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں جب امریکا گئی تھی تو کورونا کے بعد زیادہ تر کام آن لائن ہو رہا تھا جبکہ وہاں تو پہلے ہی سے دفتر کا سب کام نیٹ ورکنگ کے ذریعے ہوتا تھا۔ خواتین کو اس دوران بہت سہولت دی گئی کہ اگر کسی کا بچہ چھوٹا ہے تو وہ انہیں آرام دیتے تھے جبکہ حاملہ خواتین کو مکمل طور پر گھر سے کام کرنے کی اجازت تھی‘۔


’ہم تمہارے گھر نہیں آئیں گے، تم ہندو ہو‘


دیپ اور ان کے شوہر رنجیت کمار راجانی کی دو بیٹیاں ہیں جن کی تعلیم و تربیت اس طرح کی جارہی ہے کہ ان کی بیٹی ’شنایا‘ نے دس سال کی عمر میں ’مڈ نائٹ کرائسز‘ کے نام سے کہانی کی کتاب لکھی اور حال ہی میں جب وہ 11 سال کی ہوئیں تو ان کی دوسری کتاب ’ونڈر ٹیلز‘ کے نام سے نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے۔

دیپ کرن نے اپنی بیٹی کے ساتھ پیش آئے مذہبی تفریق کے ایک واقعے کے متعلق بتایا کہ ’میری بیٹی پہلی جماعت میں تھی، وہ ایک معروف اسکول میں پڑھ رہی تھی۔ ایک دن وہ گھر آئی تو پریشان تھی۔ ہمارے پوچھنے پر بتایا کہ اس کی دوست نے اسے کہا ہے کہ ’تم ہندو ہو میں تم سے بات نہیں کروں گی، میری مما نے تمہارے گھر آنے سے بھی منع کیا ہے‘۔ اس بچی نے دیگر بچیوں سے بھی یہی کہا اور کئی بچیوں نے میری بیٹی سے بات کرنا چھوڑ دی۔ ہم یہ جان کر بہت پریشان ہوئے اور پھر ہم نے اس حوالے سے اسکول کی پرنسپل سے بات کی تو انہوں نے اس مسئلے کو بہت خوش اسلوبی سے حل کیا لیکن اس مسئلے پر ہم سب بہت پریشان رہے اور میری بیٹی ڈپریشن میں آگئی تھی‘۔

وہ کہتی ہیں کہ’ آج جب ہم اپنے معاشرے میں مذہبی تعصب کی بنا پر تشدد آمیز واقعات دیکھتے ہیں تو میرے خیال میں ان کے تدارک کے لیے ہمیں اسکولز کی سطح پر کام شروع کرنا چاہیے۔ ہم یونیورسٹی یا پروفیشنل لوگوں کے ساتھ آگہی کے لیے ڈائیلاگ/پروگرام منعقد کرتے ہیں جبکہ اس وقت وہ معاشرے کے سرد وگرم سے گزر چکے ہوتے ہیں۔

’اس کی بجائے بہتر ہوگا کہ اسکولز میں جب بچے کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہیں، اس عمر میں انہیں اتفاق سکھائیں تاکہ انہیں سمجھا سکیں کہ ہمیں کسی مذہبی یا صنفی تفریق کے بغیر سب سے اچھا برتاؤ کرنا چاہیے اور انہیں صرف اچھائی اور برائی کے معیار پر دوسروں کو پرکھنا سکھائیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں تنوع قبول کرنے کی طرف راغب کرنا چاہیے اور بچوں کو سانولی گوری رنگت یا موٹی پتلی جسامت پر ایک دوسرے کو شرمندہ نہ کرنے کی تربیت دینا چاہیے‘۔

دیپ کرن تجویز پیش کرتی ہیں کہ ’اس ضمن میں میڈیا خصوصاً ڈرامے واشتہارات اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کبھی ہم کرسمس، دیوالی یا ہولی کے مواقع پر میڈیا میں اشتہارات نہیں دیکھتے جس سے اقلیتی برادری کو معاشرے میں اپنی اہمیت اور یک جہتی کا احساس ہو۔ اسی طرح ڈراموں میں ہمیشہ تمام کردار مسلم دکھائے جاتے ہیں جبکہ غیرمسلموں کو مرکزی کرداروں کے دوست/سہیلی کے طور پر بھی دکھایا جاسکتا ہے جس سے اچھے برتاؤ کا پیغام دیا جائے۔ اس طرح کے اقدامات سے ہم اقلیتوں کو پاکستان میں اپنی موجودگی کا احساس دلا سکتے ہیں اور رواداری کو فروغ دے سکتے ہیں‘۔


’اذان سننے میں سکون ملتا ہے‘


آپ کو مسلم معاشرے کی روایات میں کیا پسند ہے؟ اس سوال کے جواب میں دیپ کرن نے کہا کہ ’مسلمانوں کو باقاعدگی سے نماز پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ جب اذان ہوتی ہے خاص طور پر مغرب کی اذان سن کر بہت مثبت اور خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ یہ شاید اس لیے ہے کیونکہ میرا عقیدہ ہے کہ کوئی مذہب بھی آپ کو منفی تعلیم نہیں دیتا اور سب سکون کی جانب راغب کرتے ہیں۔

’اس کے علاوہ مجھے مسلمانوں کا عید کا تہوار بہت اچھا لگتا ہے۔ عید کے موقع پر ہمارے مسلم دوست ہمارے گھر بھی مٹھائی بھیجتے ہیں۔ اسی طرح دیوالی اور کرسمس کے موقع پر ہمارے ادارے میں بھی غیر مسلم اسٹاف کو کیک دیے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے تہواروں سے پہلے ہی تنخواہ دے دی جاتی ہے اور چھٹیاں بھی دیتے ہیں۔ اس سے یہ ہمیں یگانگت کا خوشگوار احساس ہوتا ہے‘۔

پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں سفید رنگ ملک کی اقلیتی برادری کی نمائندگی کرتا ہے۔ 2023ء کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار ہے جس میں 96.35 فیصد مسلم اور اقلیتی آبادی 3.65 فیصد بتائی گئی ہے۔

پاکستان کا آئین غیرمسلم شہریوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی، ووٹ کا حق اور انتخابات لڑنے سمیت بنیادی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم معاشرے میں وقتًا فوقتًا مذہبی تفریق کی بنا پر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو آئین کی روح کے منافی ہیں اور بانی پاکستان کی مذہبی تنوع کے متعلق اس فکر کے بھی برخلاف ہیں جن کا اظہار انہوں نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے وجود میں آتے ہی، اس کے افتتاحی اجلاس میں کیا تھا۔

’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے، اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں کیونکہ وہ ایک ہی ریاست کے مساوی شہری ہوں گے‘۔

حوالہ: (تقاریر، بیانات اور پیغامات قائداعظم، جلد اول لاہور 1996ء)

بلاشبہ غیر مسلم پاکستانی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں مسلم اکثریت کی طرح اہمیت رکھتے ہیں اور مختلف شعبہ جات میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان کے جشنِ آزادی کے حوالے سے اقلیتی برادری کی ایک ایسی ہی خاتون کا انٹرویو ہم نے نذر قارئین کیا۔

غزالہ فصیح

غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔