نقطہ نظر

شیخ حسینہ واجد کی برطرفی، مودی کی ایک اور سفارتی ناکامی

اگر مودی کی انٹیلی جنس ٹیم دور دراز ممالک میں سکھ باغیوں کا پیچھا کرنے میں مصروف نہ ہوتی تو شاید وہ اپنی اتحادی حسینہ واجد کو ڈھاکا میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کے حوالے سے خبردار کردیتے۔

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے 5 اگست کا دن کس حوالے سے یادگار ہوگا؟ ظاہر ہے کہ یہ وہ دن ہے کہ جب اپنی آمرانہ طرزِ حکمرانی کے خلاف ہونے والے شدید مظاہروں کے نتیجے میں حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔

برطرف حسینہ واجد ایک ایسے خطے میں نریندر مودی کی قریبی اتحادی تھیں کہ جہاں بھارت اکثر چین کے حوالے سے خدشات میں مبتلا رہتا ہے۔

یا یہ امکان زیادہ ہے کہ 5 اگست کا دن کشمیریوں کے حوالے سے یاد رکھا جائے کہ جب مودی حکومت نے 2019ء کی پارلیمانی تحریک کے ذریعے مقبوضہ وادی سے ان کی خصوصی حیثیت چھین لی تھی۔ اتفاق سے یہ وہی دن ہے کہ جب پہلی بار چین کے ساتھ تنازعہ شدت اختیار کرگیا اور ہمالیہ کی سرحدوں میں بھارت-چین کے درمیان تناؤ آج بھی برقرار ہے۔

چین جموں و کشمیر کو توڑنے کے معاملے پر مشتعل ہوا اور اس نے لداخ کو ایک علحیدہ علاقہ بنایا جس پر بھارت اپنا دعویٰ کرتا ہے اور چین اس سے خوش نہیں۔

یا 5 اگست کو حوالے سے یاد کیا جائے کہ جب ٹی وی چینلز پر ایودھیا میں رام مندر کی بنیاد رکھنے کی تقریب نشر کی گئی اور وہ بھی ایک ایسے ملک کے سربراہ نے رکھی جو خود کو سیکیولر کہتا ہے۔

اب چاہے تاریخ میں 5 اگست کو کسی بھی حوالے سے یاد رکھا جائے لیکن اہم یہ ہے کہ نریندر مودی ان تینوں مواقع پر ناکام رہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کشمیریوں کے خلاف یہ قدم اٹھا کر انہوں نے دہشتگردی کو ختم کیا ہے اور خطے میں امن و سلامتی لے کر آئے ہیں لیکن درحقیقت یہ سچ نہیں۔

انہیں یہ گمان تھا کہ ایودھیا مندر کی تقریب کے بل پر وہ انتخابات جیت سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ انہیں تو اپنی تیسری دورِ حکومت کے لیے دو اتحادیوں کی حمایت کی ضرورت پڑی۔ اتحادی بھی وہ جنہوں نے بابری مسجد کی شہادت کی مخالفت کی تھی۔

اپنے قریبی دوست کا تختہ الٹ جانا وہ بھی ایسی دوست کہ جنہوں نے مودی کی تینوں تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی، مودی کی پہلے سے خراب قسمت پر ایک اور وار ثابت ہوا۔ جب تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد شیخ حسینہ واجد نے نریندر مودی سے دو مرتبہ ملاقات کی تو مودی کو ڈھاکا میں بڑھتے اضطراب کو بھانپ لینا چاہیے تھا۔

شیخ حسینہ نے رواں سال جنوری میں ہی عام انتخابات میں کامیابی سمیٹی تھی جبکہ اپوزیشن نے تو انتخابات کا بائیکاٹ ہی کردیا تھا۔ اگر چین کو سنبھالنے کے لیے حسینہ واجد، نریندر مودی کا ہتھیار تھیں تو اس معاملے میں وہ انتہائی کمزور اتحادی تھیں۔

اگر مودی کی انٹیلی جنس ٹیم دور دراز ممالک میں سکھ باغیوں کا پیچھا کرنے میں مصروف نہ ہوتی تو شاید وہ اپنی اتحادی حسینہ واجد کو ڈھاکا میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کے حوالے سے متنبہ کردیتے۔ تاہم اس طرح کے غلط سفارتی فیصلے مودی کے لیے نئے نہیں۔

قصور ان کا بھی نہیں بلکہ ان کے نظریات اور ہندوتوا کی مغربی حمایت کی وجہ سے وہ تیزی سے بدلتی عالمی حرکیات کے حوالے سے آگاہی کم رکھتے ہیں جبکہ دوسری جانب جواہرلال نہرو کو عالمی حرکیات کی پیچیدگیوں کو سمجھتے تھے اور ان کے تابع کام کرتے تھے۔

حسینہ واجد کی حکومت سے برطرفی نے شاہ ایران کے زوال کی یاد تازہ کردی اور ہم نے ایک بار پھر دیکھا کہ بی جے پی عالمی حالات میں بھانپنے میں کس طرح ناکام ہوئی جبکہ وہ کامیاب سفارت کرنے والے ممالک میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں۔

جس طرح جون میں حسینہ واجد نے دو بار بھارت کا دورہ کیا، اسی طرح شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا آخری بیرونی دورہ بھی بھارت ہی کا تھا۔ اس وقت بھی مخلوط حکومت کی صورت میں بی جے پی برسراقتدار تھی۔ شاہ ایران کا پُرتپاک استقبال کیا گیا جبکہ اٹل بہاری واجپائی وزیرخارجہ تھے۔

بھارت کی سفارتی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ جس میں بھارت نے جس عالمی رہنما کی حمایت کی یا بی جے پی رہنما نے انہیں سفارتی ٹرافی سمجھ کر سینے سے لگایا، انہیں یا تو انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یا وہ عوامی مظاہروں یا فوجی بغاوت کے بعد اقتدار سے بےدخل ہوگئے۔

ان واقعات کو محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا بلکہ انہیں تو بی جے پی کا خراب انتخاب کہا جاسکتا ہے جو وہ اکثر واشنگٹن کو خوش کرنے کے لیے کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے بی جے پی بھارت کے عالمی مفادات کو پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ مغربی سرپرستی کی خواہش میں بی جے پی (بھارت، چین کے خلاف خود کو اتحادی کے طور پر پیش کررہا ہے) نے ان سفارتی اقدار کو مکمل نظرانداز کردیا ہے جن کی وجہ سے پہلے وہ اپنے ہمسایوں اور جنوبی خطے میں خاص پہچان رکھتا تھا۔

1978ء میں پہلے امریکی ڈیموکریٹک صدر جمی کارٹر نے دہلی کا دورہ کیا۔ ان کے بعد شاہ ایران کی بھی بھارت آمد ہوئی۔ دونوں کی میزبانی بی جے پی حکومت نے ہی کی تھی اور وزارت خارجہ کی کرسی پر نامور اٹل پہاری واجپائی پراجمان تھے۔ جمی کارٹر دوسری مدت کے لیے اقتدار میں نہیں آسکے جبکہ شاہ ایران پناہ تلاش کرتے رہے اور ان کے سابق اتحادیوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ دہلی میں تو انہیں خوب عزت دی گئی لیکن وہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک مفرور کے طور پر زندگی کی بازی ہار گئے اور اس وقت کسی دوست نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

اس سے بھی بدتر یہ تھا کہ شاہ ایران کے بعد بھارتی حکومت آیت اللہ خمینی کی مجلس سے روابط استوار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ واجپائی کو لکھنؤ میں ایک شیعہ عالم ملے جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ انہیں خمینی کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے بعد تہران میں جو کچھ ہوا، بھارتی اخبار میں اسے مضحکہ خیز انداز میں رپورٹ کیا۔

ہوا کچھ یوں کہ شیعہ عالم تہران گئے تو آیت اللہ خمینی انہیں جعلی نمائندہ قرار دیا اور مذمت کی۔ یہی نہیں بلکہ سپریم لیڈر نے متعلقہ عالم کو حکم دیا کہ وہ یہ بات جا کر بھارتی وفد سے بھی کہیں جس کی قیادت سابق وزیر اشوک مہتا کررہے تھے۔

خیر اس سے تو ہم سب ہی واقف ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کیا ہوا تھا جب مودی دوسری مدتِ صدارت کے لیے مہم چلانے ہوسٹن کے دورے پر گئے تھے۔ اب وہ ولادیمیر ہیلنسکی سے ملاقات کے سلسلے میں کیف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، غالباً وہ ایسا واشنگٹن کو خوش کرنے کے لیے کریں گے جو ماسکو کے ساتھ بھارت کے قریبی تعلقات سے باخوبی واقف ہے۔

ایسے ہی طویل عرصے سے برسراقتدار ایک اور عالمی لیڈر ہے جن کی ہندوتوا کے رہنما نظریاتی بنیادوں پر حمایت کرتے ہیں۔ وہ ہیں اسرئیل کے بنیامن نیتن یاہو۔ مودی کی طرح اٹل بہاری واجپائی نے بھی نواز شریف پر سرمایہ کاری کی جو اس وقت بالکل بھی تیار نہیں تھے۔ لاہور سربراہی اجلاس کے بعد نواز شریف کو جلد ہی فوج نے برطرف کردیا۔ اس کے بعد واجپائی برسوں تک جنرل پرویز مشرف سے ناراض رہے۔

اس کے باوجود واجپائی پہلے رہنما تھے جنہوں نے نئے نئے صدر بننے والے جنرل پرویز مشرف سے مصافحہ کیا۔ ان کی دوستی کی بدولت آگرہ سربراہی اجلاس ہوا اور پھر 2004ء میں واجپائی نے مشرف سے ملاقات کرنے کے لیے کراچی کا دورہ کیا۔ اٹل بہاری واجپائی کو اگلے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر کچھ عرصے بعد ہی پرویز مشرف کی حکومت بھی سیاسی افراتفری کی نذر ہوگئی۔

اندرا گاندھی اور اٹل بہاری واجپائی نے جس طرح جوہری تجربے کیے، ان سے بھی بی جے پی کی سفارتی ناکامی کی ایک جھلک ملتی ہے۔ ایک نے خاموشی سے دھماکے کیے اور انہیں پُرامن قرار دیا جبکہ واجپائی اس کے برعکس تھے۔ انہوں نے امریکی صدر بل کلنٹن کو خط لکھا کر لفاظی کی کہ کیسے ان کے جوہری تجربے کا ہدف چین تھا۔

اب یہ اچھا اقدام تھا یا برا لیکن بل کلنٹن نے یہ خط پریس میں دے دیا۔ اسی طرح یہ کہنا مشکل ہے کہ سفارتی معاملات سے شیخ حسینہ زیادہ لاعلم تھیں یا نریندر مودی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔