چیف جسٹس نے ارشد شریف کیس لارجر بینچ کے سامنے مقرر نہ کرنے کی وجوہات بتا دیں
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے وضاحت کی ہے کہ صحافی ارشد شریف قتل کیس کو اس لیے 5 رکنی لارجر بینچ کے سامنے مقرر نہیں کیا گیا کیونکہ اس میں کسی بھی قسم کی آئینی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے یکم اگست کی سماعت پر سپریم کورٹ پریکسٹر اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے تحت مقدمات مقرر کرنے والی تین رکنی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان وجوہات کو بیان کیا۔
یہ اجلاس جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی سماعت کے بعد منعقد ہوا، جس نے ارشد شریف کیس کو اس بنیاد پر کمیٹی کو واپس بھیجا تھا کہ اس کی سماعت پہلے 5 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی اور اب اس کیس کو ججز کی اتنی ہی تعداد پر مشتمل بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہونا چاہیے۔
اجلاس کے منٹس کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ جب تک ایک کیس کی آئینی نکات کی وضاحت درکار نہ ہو ، اسے 5 رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ضرورت نہیں اور اس طرح کے کیسز کو ایک ریگولر بینچ سن سکتا ہے۔
کمیٹی کے دوسرے اراکین جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا مؤقف تھا کہ اس کیس کو پہلے پانچ رکنی بینچ نے سنا تھا، اس لیے ایک ایسا ہی بینچ دوبارہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
دونوں ججز نے چیف جسٹس کی بتائی گئی وجوہات سے اختلاف کیا، جس کے بعد کمیٹی نے اس کیس کو 5 رکنی بینچ کے سامنے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی شامل ہوں گے۔
کمیٹی نے ایڈ ہاک ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور مظہر عالم خان میاں خیل کی جانب سے 30 جولائی کو لکھے گئے خط پر بھی غور کیا، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ان کے سامنے مزید کیسز مقرر کیے جائیں۔
مزید ازاں، سپریم کورٹ میں حال ہی میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے تعینات کیے جانے والے ایڈ ہاک ججز کا کہنا ہے کہ ان کے سامنے اب تک صرف 10 مقدمات مقرر کیے گئے ہیں جن کے فیصلہ 70 منٹ کیا گیا تھا، اس کے بعد کمیٹی نے ایڈ ہاک ججز کے سامنے مزید کیسز مقرر کا فیصلہ کیا، جس کے لیے رجسٹرار نے 1100 پرانے مقدمات کی نشاندہی کی ہے۔
کمیٹی شریعت ایپلٹ بینچ پر مشتمل ہے، جس میں چیف جسٹس پاکستان، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن اور علما ممبرز ڈاکٹر محمد خالد مسعود اور ڈاکٹر قبلہ ایاز شامل ہیں۔