دنیا

امریکا کی جانب سے بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کا خیرمقدم

ہم عبوری حکومت کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اقتدار کی کسی بھی قسم کی منتقلی بنگلہ دیش کے قوانین کے مطابق ہو، میتھیو ملر

امریکا نے بنگلہ دیش میں پرتشدد صورتحال اور سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے کے بعد عبوری حکومت کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام فریقین سے مزید تشدد سے باز رہنے کی اپیل کرتے ہیں، گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران بہت جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور ہم آنے والے دنوں میں پرسکون اور تحمل سے کام لینے کی اپیل کرتے ہیں۔

حسینہ نے جولائی کے اوائل سے ہی اپنی حکومت کے خلاف ملک گیر مظاہروں کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اتوار کو سول نافرمانی کی تحریک کے پہلے روز ملک بھر میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں تقریباً 100 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

ملک میں اتوار تک پرتشدد مظاہروں میں 300 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد حسینہ واجد نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا اور آرمی چیف قمرالزمان نے آج ملک میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔

میتھیو ملر نے کہا کہ امریکا کو ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ فوج نے طلبہ کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں پر مزید کریک ڈاؤن کرنے کے دباؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ حقیقت میں درست ہے کہ فوج نے قانونی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے مطالبے کی مزاحمت کی تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم عبوری حکومت کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اقتدار کی کسی بھی قسم کی منتقلی بنگلہ دیش کے قوانین کے مطابق ہو۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا فوج کو ملک کی اگلی قیادت کا انتخاب کرنا چاہیے تو ترجمان نے جواب دیا کہ ہم چاہتے ہیں بنگلہ دیش کے ملک کے مستقبل کی حکومت کا فیصلہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کو بھی ہفتے کے آخر اور پچھلے ہفتوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ہلاکتوں اور لوگوں کے زخمی ہونے کی رپورٹس کا شدید دکھ ہے۔

میتھیو ملر نے کہا کہ ان اموات کا احتساب یقینی بنانے کے لیے مکمل اور شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔

سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کے امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں جہاں انہوں نے اسلامی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور میانمار میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کو پناہ دینے جیسے اقدامات کیے جسے امریکا کی جانب سے سراہا جاتا رہا ہے۔

البتہ ملک میں بڑھتے ہوئے آمرانہ اور جابرانہ اقدامات پر امریکا کے مقتدر حلقوں کی جانب سے ان پر تنقید کی گئی اور ملک میں جمہوریت پر خدشات کے پیش نظر ان پر ویزا پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔