یومِ استحصالِ کشمیر: تاریخی عالمی قانون شکنی کو 5 سال مکمل!
پانچ اگست 2019ء کے سیاہ ترین دن، بھارت نے نہ صرف عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیریں بلکہ اپنے آئین کے بھی پامالی کی۔ اس تاریخی قانون شکنی کو پانچ سال مکمل ہوچکے ہیں۔
بھارت کا یہ رویہ نیا نہیں ہے بلکہ اس نے تقسیم ہند کے بعد سے ہی فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ کشمیری مسلمانوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں دے گا اور وہ کشمیریوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لیے نئی نئی حربے استعمال کرتا رہا ہے۔
تقیسمِ ہند کے وقت جب کشمیر کے لوگوں نے حق خود ارادیت نہ ملنے پر اپنی آزادی کی جنگ شروع کی تو بھارت اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا جہاں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوام متحدہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کو ناجائز قرار دے کر اپنی نگرانی میں وہاں رائے شماری کرواتا لیکن فوری طور پر ایسا نہیں ہوا البتہ اقوامِ متحدہ نے یہ تسلیم کرلیا کہ یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے اور اس مسئلے کا حل صرف اور صرف کشمیریوں کو ان کا حق خود اِرادیت دینا ہے۔
اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948ء کی قرارداد میں کہا گیا کہ پہلے پاکستان اپنی فوجیں کشمیر سے نکالے اور پاکستان نے یہ مطالبہ فوراً مان لیا تھا لیکن 14 مارچ 1950ء کو سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی کہ اب دونوں ممالک بیک وقت افواج کا انخلا شروع کریں۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ جب پاکستان اپنی فوج اور قبائلیوں کو نکال لے تو یہاں کا انتظام مقامی انتظامیہ سنبھال لے گی اور کمیشن ان کی نگرانی کرے گا۔
اس قرارداد میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ بھارت کو یہاں لاکھوں کی تعداد میں فوج رکھنے کی اجازت ہوگی بلکہ یہ کہا گیا کہ بھارت بھی اپنی فوج یہاں سے نکال لے لیکن آج بھی بھارت اقوام متحدہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 5 لاکھ سے زائد فوجی وہاں تعینات کیے ہوئے ہے۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی چشم پوشی کی وجہ سے بھارت کے حوصلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس نے پانچ اگست 2019ء کو اپنے ہی آئین میں ترمیم کرکے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا۔ بھارتی آئین کا یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دیتا تھا اور اس آرٹیکل کے تحت بھارتی آئین کی دیگر دفعات اور قوانین جو دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ ریاست جموں و کشمیر پر لاگو نہیں تھے۔
اس آرٹیکل کے تحت بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں و کشمیر کے اندر جائیداد نہیں خرید سکتا تھا بلکہ وہاں پر کوئی بھارتی کارپوریشن اور دیگر نجی ادارے بھی کوئی جائیداد نہیں حاصل کرسکتے تھے۔ ریاست کے اندر رہائشی کالونی اور صنعتی کارخانے اور ڈیم لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں ہوسکتا تھا۔ کشمیر کی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے اور وہاں ہندوؤں کو بسانے کے لیے کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی غرض سے بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا۔
پہلے ہی بڑے پیمانے پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں مختلف حیلے بہانوں سے کشمیری شہریوں کا قتل عام کیا جاتا تھا اور قتل ہونے والے مظلوم کشمیریوں کو ’دہشت گرد‘ اور ’گُھس بیٹھیے‘ کہہ کر قتل کیا جاتا رہا ہے۔ یہ وحشیانہ کارروائیاں آج بھی جاری ہیں۔ بھارت 1947ء سے کشمیر میں قتل عام کا مرتکب ہے۔ آرٹیکل 370 کے ختم ہونے کے بعد تو گویا بھارت کو کشمیریوں کے قتل عام کا لائسنس مل گیا ہے۔
پاکستان کے ساتھ بھارت کی جتنی بھی جنگیں ہوئیں، ان میں کشمیر سب سے بڑی اور بنیادی وجہ رہا ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے کے بعد بھارت نے کشمیر کی آبادی کا تناسب خراب کرنے کے لیے 4 لاکھ سے زیادہ غیرمقامی لوگوں کو یہاں کا ڈومیسائل دیا۔
بھارت کی یہ پالیسی بالکل اسی طرح سے تھی جیسے اسرائیل نے غیر قانونی آبادکاری کے لیے 1948ء میں دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر آباد کیا اور یوں ظلم وبربریت کے ایک نہ ختم ہونے والا خونی سلسلے کا آغاز ہوا جو آج وحشت کی تمام حدود عبور کرچکا ہے۔
بھارت کا یہ رویہ اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں، جینیوا کنوینشن سمیت ہر عالمی ضابطے کے خلاف ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوام متحدہ اس کا نوٹس لیتا، مقبوضہ کشمیر کا کنٹرول اقوام متحدہ کی امن فوج کے حوالے کرتا اور فوری طور پر اس بات کا انتظام کرتا کہ کشمیریوں کو خودمختار بنایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب کچھ نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ نے اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ اس چشم پوشی کی وجہ سے بھارت نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت میں موجود مسلمانوں کو بھی نشانہ بنانا رہا ہے۔ ریاست میں سیکولر ازم کا نقاب اتر چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال نریندر مودی کے بنائے ہوئے شہریت کے نئے قوانین ہیں جن کے تحت صدیوں سے بھارت میں آباد مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ان کے آباؤ اجداد بھی بھارت کے شہری تھے۔
اس سے واضح ہوچکا ہے کہ بھارت اب ایک سیکولر ملک نہیں رہا بلکہ ایک تنگ نظر ہندوتوا فلسفے پر چلنے والی ریاست ہے جس میں اقلیتوں، اختلاف رائے رکھنے یا انسانی حقوق کی پاسداری کی کوئی گنجائش نہیں۔
آج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی قانون کے تحت آزادی اور استصواب رائے کے حق کا مطالبہ ’دہشت گردی‘ بن چکا ہے۔ اپنی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے والے ہر کشمیری کو ’دہشت گرد‘ کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق، میڈیا اور آزاد مبصرین بھی اس پر آواز بلند کرتے ہیں تو بھارتی ہندتوا حکومت طیش میں آکر انہیں انتقام کا نشانہ بناتی ہے۔ کالے قوانین کے تحت کسی کو بھی اٹھالیا جاتا ہے اور ماورائے عدالت قتل کردیا جاتا ہے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں ڈھونگ اور نام نہاد انتخابات میں گزشتہ کئی برسوں سے ووٹنگ کی شرح یہ ثابت کرتی ہے کہ وہاں کے عوام انہیں انتخابات تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو بھارت کا حصہ سمجھتے ہیں۔
کشمیریوں کے ’بھارت کی غلامی نامنظور‘ کے عزم کو کچلنے کے لیے بھارت کے پاس جھوٹے پروپیگنڈا پھیلانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر الزامات لگانا، سرحد پار سے مداخلت کی تہمتیں گھڑنا، پاکستان کی سلامتی کے اداروں کو بے بنیاد طور پر ملوث کرنا بھارت کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ یورپی یونین ڈس انفولیب کے جھوٹ سے لے کر کینیڈا، امریکا میں سکھوں کو قتل کروانے کے چشم کشا حقائق تک، آج خود بھارت دنیا میں دہشت گرد ثابت ہوچکا ہے۔
حقیقی اور بنیادی نقطہ یہی ہے کہ اقوام متحدہ فلسطین اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے انسانی اور قانونی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرے، بصورت دیگر ظلم وبربریت کی یہ آگ پوری دنیا کے امن کو کھا جائے گی۔
سلام ہے کشمیریوں اور ان کی قیادت کو جو ہر ظلم کے خلاف سینہ سپر ہیں اور کوئی ظلم انہیں ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے نعرے سے روک نہیں سکا۔