9مئی سے متعلق فوج کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی، نہ آئےگی، ڈی جی آئی ایس پی آر
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی ) لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان آرمی عوام کے لیے سماجی اکنامک پروجیکٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے جب کہ 9 مئی سے متعلق فوج کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے، نہ آئےگی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یوم استحصال کے موقع پر میں پیغام دینا چاہتا ہوں کہ افواج پاکستان حق خود ارادیت کی منصفانہ جد وجہد میں مقبوضہ کشمیر کے بہادر عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن، علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے بھارتی اقدامات اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی یہ سب بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے دن افواج پاکستان مقبوضہ کشمیر کے ان شہدا کو ان کی عظیم قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ظلم اور غیر قانونی تسلط کے خلاف کشمیریوں کی منصفانہ جد وجہد میں کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حکومت پاکستان ان کے مؤقف کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتی ہے۔
ان کہنا تھا کہ مختلف امور میں قومی اور داخلہ سلامتی سے جڑے مسائل، دہشت گردی کے خلاف کیے جانے والے مؤثر اقدامات اور افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے گاہے بگاہے آگاہی بے حد ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سال 2024 کے پہلے 7 ماہ میں کاؤنٹر ٹیررزم کے ان آپریشن کے دوران 139 بہادر افسران اور جوانوں نے جام شہات نوش کیا، پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کےلواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، اس سے ظاہر ہوت اہے کہ افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنیسز پاکستان کی داخلی اور بارڈر سیکیورٹی کو یقینی اور دائمی بنانے کے لیے مکمل طور پر فوکسڈ ہیں۔
’آرمی سماجی، معاشی پروجیکٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشت گرد اور اس سے جڑی دہشتگردی کے خاتمے تک جاری رہے گی، خواتین و حضرات، کاؤنٹر ٹیررزم اور فوجی آپریشنز کے علاوہ جیسا کے پہلے کہا کہ افواج پاکستان بالخصوص پاکستان آرمی عوام کے لیے سماجی اکنامک پروجیکٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے، ان میں بہت سے فلاحی کام ہیں، جیسا کہ تعلیم، صحت، فلاح و بہبود، معاشی خود انحصاری اور دیگر شعبہ جات کے پروجیکٹس، جو فوج، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے مکمل کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان کی خصوصی توجہ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں پر ہے، اس کے علاوہ فلاحی منصوبے آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جاری ہیں یا پایہ تکمیل تک پہنچائے جا چکے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشت گرد اور اس سے جڑی دہشتگردی کے خاتمے تک جاری رہے گی، خواتین و حضرات، کاؤنٹر ٹیررزم اور فوجی آپریشنز کے علاوہ جیسا کے پہلے کہا کہ افواج پاکستان بالخصوص پاکستان آرمی عوام کے لیے سماجی اکنامک پروجیکٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے، ان میں بہت سے فلاحی کام ہیں، جیسا کہ تعلیم، صحت، فلاح و بہبود، معاشی خود انحصاری اور دیگر شعبہ جات کے پروجیکٹس، جو فوج، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے مکمل کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان کی خصوصی توجہ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں پر ہے، اس کے علاوہ فلاحی منصوبے آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جاری ہیں یا پایہ تکمیل تک پہنچائے جا چکے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تعلیم کے شعبے کی بات کرتے ہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کی ترقی میں تعلیم بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اس حقیقت کے پیش نظر افواج پاکستان کی جانب سے پاکستان کے طول و عرض بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں تعلیمی وسائل کی فراہمی کے لیے جامع اقدامات کیے گئے، اور اس ضمن میں مختلف تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، خیبرپختونخوا اور خاص طور پر نئے ضم شدہ اضلاع میں 94 اسکول 12 کیڈٹ کالجز، 10 ٹیکینکل اور ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان تعلیمی اداروں سے تقریباً 80 ہزار بچے تعلیم کی روشنی سے مستفید ہو رہے ہیں، 2 منصوبے جن کا میں خصوصی طور پر ذکر کروں گا، پہلا منصوبہ چیف آف آرمی اسٹاف کی یوتھ ایمپلائمنٹ اسکیم ہے، جس کے تحت ان اضلاع میں 1500 مقامی بچوں بشمول ملٹری کالجز میں مفت تعلیم دی جاری ہے، دوسرا منصوبہ علم ٹولو دا پارا یعنی تعلیم سب کے لیے، اس منصوبے کے تحت خیبرپختونخوا 7 لاکھ 46 ہزار 768 طالب علموں کو انرول کیا گیا ہے، جن میں 94 ہزار سے زائد کا تعلق نئے ضم شدہ سے ہے، اس منصوبے کے تحت تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو معاشرے کا کامیاب شہری بنانے کے لیے ڈیجیٹل اور ٹیکینکل اسکلز بھی سکھائی جا رہی ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ اسی طرح بلوچستان کے حوالے سے بات کی جائے تو 60 ہزار طالب علموں کو 160 اسکول اور کالجز، 12 کیڈٹ کالجز، یونیورسٹیز اور 3 ٹیکینکل انسٹی ٹیوشن کا قیام وفاقی اور صوبائی کے تعاون سے عمل میں لایا گیا ہے، بلوچستان کے ان طلبہ کے لیے ایک جامع اسکالرشپ کا شروع کیا گیا ہے، جس میں ان کو پاکستان آرمی کی جانب سے تعلیم کے ساتھ تمام سہولیات اور اخراجات بھی فراہم کیے جار رہے ہیں، اب تک اس پروگرام کے تحت 8 ہزار سے زائد بلوچستان کے طلبہ مستفید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بلوچستان میں ایف سی اور پاک فوج کی جانب سے مختلف علاقوں میں بچوں کو تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے 92 اسکول چلائے جا رہے ہیں جن میں 19 ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں، یہ بھی بتاتا چلوں کہ افواج پاکستان کے تعاون سے بلوچستان کے 253 طالب علموں کو متحدہ عرب امارات کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم بھی دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین و حضرات، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی افواج پاکستان کی جانب سے 171 اسکول اور 2 کیڈٹ کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس میں علاقے کے 50 ہزار سے زائد طالب علم مستفید ہو رہے ہیں، اسی طرح سندھ کے دور افتادہ علاقوں میں بھی ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز اور 100 سے زائد سرکاری اسکولوں کی اپ گریڈیشن بھی کی گئی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہا کہ اب آتے ہیں صحت کے شعبے میں افواج پاکستان کے رول پر، صحت کے شعبے میں دیکھا جائے تو پاک فوج نے پاکستان کے طول و عرض مٰیں صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں، پاکستان کے مختلف اضلاع میں پاکستان آرمی کی جانب سے میڈیکل کیمپس میں ایک لاکھ 15 ہزار مریضوں کا مفت علاج کیا گیا، میڈیکل کیمپس کا فوکس خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہے، جہاں سیکڑوں اور ہزاروں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔
’گرین انیشیٹو کے تحت 8 لاکھ بنجر زمین کو زیر کاشت لایا جا رہا ہے‘
انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسی طرح صوبہ بلوچستان میں 2024 میں 87 میڈیکل کیمپس لگائے گئے، ملک بھر میں پولیو کے مرض کے خاتمے کے لیے افواج پاکستان کی جانب سے حکومت پاکستان کی پولیو مہم میں محفوظ ماحول کو یقینی بنانے کے لیے 66 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار پولیو ٹیموں کے ساتھ پورے پاکستان میں تعینات کیے گئے۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ انفرااسٹرکچر کے ضمن میں پاک فوج نے بہت اہم اقدامات کیے ہیںِ، جن میں سے کچھ کا ذکر یہاں کروں گا، خیبرپختونخوا میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے 3293 منصوبے مکمل کیے گئے، جن میں میر علی ہسپتال، لیکسن مارکیٹ ڈگری کالج میرانشاہ، گرلز ہائی اسکول وانا، روڈ وانا بائی پاس کی تعمیر اہم ہیں، اس کے علاوہ مقامی افراد کے لیے ایگریکلچر پارک وانا اور جنڈولہ مارکیٹ کے علاوہ کچھ اہم پروجیکٹس جو افوج پاکستان اور اس کے فلاحی ادارے چلا رہے ہیں، شیوا گیس فیلڈ اسپن وام ، ایک 150 کلومیٹر لمبی پائپ لائن بھی جو شیوا گیس فیلڈ کو مین گیس اسٹیشن سے ملائے گی۔
انہوں نے کہا کہ محمد خیل کاپر مائن پروجیکٹ، زرملان میں ایک ہزار ایک ایکٹر زمین کو قابل کاشت کیا جا چکا ہے، اس کے علاوہ بہت سے منصوبوں پر مقامی اور غیر مقامی کمپنیاں ان نئے ضم شدہ اضلاع میں کام کررہی ہیں، ان پروجیکٹس سے نہ صرف مقامی لوگوں کو روزگار میسر ہو رہا ہے بلکہ اس کا ایک بہت اچھا حصہ عوامی فلاح و بہبود پر بھی خرچ کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ اگر بلوچستان میں انفراسٹرکچر کی بحالی کی بات کی جائے تو تعلیم، صحت اور صاف پانی کی فراہمی افواج پاکستان کی اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں 912 منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنایا جاچکا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان میں پاک فوج کے تعاون سے سڑکوں اور پلوں کے حوالے سے اہم منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں، آرمی چیف کی طرف سے گوادر کے عوام کے لیے تعلیم، صحت، پانی اور روزگار کی فراہمی کے لیے 104 مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے اور کچھ پر کام مکمل ہو چکا ہے، گوادر میں صاف پینے کے پانی کے لیے واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ اور اس کے ساتھ ساتھ پاک چائنا فینڈشپ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجگور میں متحدہ عرب امارات کے تعاون سے ڈیٹس پروسیسنگ پلانٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، اس منصوبے سے مقامی لوگوں کو روزگار کی سہولت میسر آرہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہاں میں خصوصی طور پر چمن ماسٹر پلان کا ذکر بھی کروں گا، جس کے تحت 94 ایکڑ زمین پر مختلف تعمیراتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن کا مقصد چمن کے عوام کو متبادل روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواج پاکستان گرین انیشیٹو کے حوالے سے فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے حکومت پاکستان کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت 8 لاکھ بنجر زمین کو زیر کاشت لایا جا رہا ہے، اس میں سے ایک لاکھ ایکٹر پر کاشت شروع بھی کی جا چکی ہے، اسے رواں سال دسمبر تک ڈھائی لاکھ ایکٹر تک بڑھا دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ پانی کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سسٹم کو درآمد کیا جا رہا ہے اور مزید سسٹم ہیوی انڈسٹریز ٹیکسا میں تیار کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لائیو اسٹاک کی ترقی کے لیے ملک کے 24 اضلاع میں پروگرام شروع کیا گیا ہے، 16 ایگری کلچر ریسرچ سینٹرز بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں، ان منصوبوں سے نہ صرف روزگار مل رہا ہے بلکہ یہ فوڈ سیکیورٹی اور زر مبادلہ کی جانب اہم قدم بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی ہدایت پر ملک کی نوجوان نسل کی فلاح و بہبود یقینی بنانے اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی حب کا قیام اہم منصوبہ ہے، اس سلسلے میں ڈی ایچ اے کوئٹہ، پشاور ملتان اور اسلام آباد میں 3 ہزار سے زائد نوجوانوں کو ان آئی حب میں رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے، ملک کے دیگر علاقوں میں بھی یہ منصوبے جلد شروع کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے علاوہ افواج پاکستان قومی اہمیت کے مختلف منصوبوں پر جن کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہے، انہیں سیکیورٹی بھی فراہم کر رہی ہے، افواج پاکستان اور سول آرمز فورسز کے ہزاروں اہلکار پورے ملک میں اہم منصوبوں کی سکیوورٹی پر تعینات ہیں، اس کے علاوہ سی پیک کے منصوبوں پر بھی اہلکار تعینات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ افواج پاکستان ٹیکس کی مد میں بھی 23 ارب روپے جمع کرا رہی ہے، 2022، 23 میں بھی ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں تقریبا ایک سو ارب روپے جمع کرائے جب کہ پاکستان فوج کے رفاعی اور ذیلی اداروں نے مجموعی طور پر تقریبا 260 ارب روپے ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں قومی خزانے جمع کرائے، اس طرح سے پاک فوج اور اس کے زیر انتظام اداروں نے 2022، 23 میں مجموعی طور پر 360 ارب روپے قومی خزانے میں ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں جمع کرائے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس کے علاوہ لاکھوں خاندان ان اداروں کی وجہ سے ملازمت اور روزگار حاصل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے، افسران اور جونوانوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، شہدا ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں، اس سلسلے میں شہدا کے خاندانوں، آپریشنز میں زخمی ہونے والے غازیوں کے لیے جامع پیکجز مختص ہیں، اس وقت افواج پاکستان 2 لاکھ 40 ہزار افراد کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔
ایس آئی ایف سی کے ذریعے فوج کے بڑھتے کردار پر تنقید سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج قومی فوج ہے، اس کے جوان و افسران ملک کے ہر حصے، مذہب و مسلک سے آتے ہیں، یہ ملک کے متوسط اور غریب خاندانوں سے آتے ہیں، پاک فوج کے افسر اور جوان ملک کے اشرافیہ نہیں ہیں، پاک فوج متوسط اور طبقوں کا گلدستہ ہے، یہ میرٹ کی بنیاد پر بنے سسٹم کے تحت کام کرتا ہے، اس لیے ہر افسر و جوان کی ترجیح پاکستان ہے، اسی لیے وہ اپنی سب سے قیمتی چیز، اپنی ہر وقت ملک پر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہے؟
انہوں نے کہا کہ یہ جانیں دینے کا تسلسل 1947 سے چلتا آرہا ہے اور چلتا رہےگا، اس کا تمام تر سہرا پاکستان کی بہادر ماؤں کو جاتا ہے، یہ آپ کی فوج کسی خاص ایک سیاسی سوچ، ایک زاویے، ایک گروپ، ایک پارٹی، ایک مذہب اور ایک مسلک کو لے کر نہیں چل رہی، یہ پاکستان اور اس کی ترقی کو لے کر چل رہی ہے۔
’مافیا سمجھتا ہے اس کی کامیابی عوام کو غریب رکھنے میں ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ جو ادارہ، افسر، جوان اپنی جوان دینے کو تیار ہےتو اگر کوئی حکومت قانون کے مطابق کوئی کام دے، جس میں پاکستان کا فائدہ ہو، تو وہ کیوں پیچھے ہٹے گی، اس کے پاس کیا منطق ہے کہ وہ پیچھے ہٹے، یہ کام تو ہم کرتے آرہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس وقت ملک میں معاشی سیکیورٹی چیلجز درپیش ہے، اگر یہ واقعتا ایک چیلنج ہے اور اس میں حکومت فوج کو کوئی کام تفویض کرتی ہے تو اس میں پاک فوج بطور قومی فوج کردار ادا کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔
اور یہ سوال ہے کہ کیا پاکستان دنیا کی واحد آرمی ہے جو یہ کام کررہی ہے، اگر آپ نگاہ ڈالیں تو پوری دنیا میں بیشتر ممالک میں ان کی افواج جو معاشی اور معاشرتی پروجیکٹس ہوتے ہیں ان میں اپنی حکومت اور اپنی عوام کا ساتھ دیتے ہیں ۔ اس کی متعدد مثالیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے اس کام کو قدر اور ستائش سے دیکھا جاتا ہے، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ، اپنے مضمون نیرو انٹرسٹ کے لئے اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ اس لئے ہوتا ہے یہاں پر ایک مافیا ہے ۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے یہاں پر مافیا ہے وہ نہیں چاہتا پاکستان کی عوام ترقی کرے اور اس کی فلاح و بہبود ہو۔ وہ مافیا یہ سوال تو نہیں کرتا جس اشرافیہ کی ذمہ داری ہے تعلیم کو یقینی بنائے ، صحت کو روزگار کو کاروبار کو یقینی بنائے وہ ان پر سوال نہیں کریں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ یہ سوال نہیں کرے گا ان چیزوں کی وجہ کیا پرابلمز ہیں کیا مسائل ہیں جن کی وجہ سے یہ عوام کی فلاح و بہبود نہیں ہورہی اور کس طریقے سے ہم مسائل کو حل کرسکتے ہیں اس کو تکلیف اس بات پر ہے کہ فوج کیوں عوام کی ترقی و فلاح و بہبود کے لئے اگے بڑھ کر کام کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے یہ مافیا سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی عوام کو مجبور اور غریب رکھنے میں ہے تاکہ اس کا استحصال کرسکے ۔میں پہلے بھی اس فورم پر کہہ چکا ہوں اور میں آج دوبارہ یہی بات کروں گا جب آپ کے گھر میں اگ لگی ہو تو سوال یہ نہیں کرتے کے تم اگ بجھانے کیوں آئے ہو۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے یہ مافیا سمجھتا ہے کہ اس کی کامیابی عوام کو مجبور اور غریب رکھنے میں ہے تاکہ اس کا استحصال کرسکے ۔میں پہلے بھی اس فورم پر کہہ چکا ہوں اور میں آج دوبارہ یہی بات کروں گا جب آپ کے گھر میں اگ لگی ہو تو سوال یہ نہیں کرتے کے تم اگ بجھانے کیوں آئے ہو۔ وہ یہ سوال ضرور کرے جس نے یہ اگ لگائی ہے یا جس کو اس اگ لگانے کا فائدہ ہے ضروری یہ بات ہے کہ سوال کرنے کو کرنے والے کو اور اس اگ کو لگانے والے کو پہنچانیں۔
انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی تباہی میں اس کی کامیابی ہے اور ہمیں یہ چاہیے ہمیں اسے پہنچانیں ، اس مافیا کو پہچانیے اور اس کو یک زبان ہو کر ایک جواب ددیں کہ تم جو کچھ کرلو ، جو ہم کر رہے ہیں، کوئی چیز بھی ہمیں وہ کرنے سے روک نہ روک سکتی، نہ روکے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا دیکھیں ایرانی تیل کیوں آتا ہے ، یہ ایک کمپلیکس مسئلہ ہے ، اس کو پہلے ہم تیل کے مسئلے کے حوالے سے بات کرتے ہیں، یہ جو بلوچستان کے علاقے ہیں جو متصل ہیں اس کے ساتھ ایران کے ساتھ، سہولیات کے اعتبار سے وہ اس طرح نہیں ہیں جیسے ہم یہاں شہر میں پنڈی یا اسلام آباد یا لاہور میں، وہاں پر آپ نے تیل کی بات کی تو وہاں پر تیل ایسے نہیں کہ آپ گاڑی چلائیں گے اور پیٹرول اسٹیشن پر چلے جائیں گے اور پیٹرول ڈالیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ نے اگر گروسی لینی ہے تو آپ کسی مارکیٹ میں جائیں گے وہاں سپر مارکیٹ سے کارٹ بھریں گے اور لے کر آجائیں گے، وہاں پر جو بنیادی سہولیات ہیں ان کی کمی ہے، چاہے وہ تیل ہو یا صاف پانی ہو یا تعلیم ہو ، صحت ہو، روزگار کے مواقع ہوں تو جب ایک اور یہ بڑے وسیع علاقے ہیں اور یہ صرف آج سے نہیں ہے اور یہ کئی دہائیوں اور عرصے سے ہے۔
’سرحد پر باڑ لگانے سے غیر قانونی آمدورفت میں کمی آئی‘
انہوں نے کہا کہ تو ان کے پاس معاشی سسٹم میں ان کی آزادی وہ سرحدی تجارت ہے کیونکہ وہاں اگر ان وسیع علاقوں میں اگر آپ جو ضروریات زندگی ہے زندہ رہنے کے لئے وہ نہیں دیتے اور وہ فراہم نہیں کرتے اور آپ ادھر آجائیں اور فوج کو کہیں کہ آپ ادھر آجائیں یہ بارڈر سیل کردیں اور بلکل بند کردیں اور کوئی چیز نہیں آنے دیں تو پھر تو یہ مافیا مزید خوش ہوگا کہ اچھا جی یہ مقامی لوگ اور فوج ہم نے آمنے سامنے کھڑی کردی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے اور اس پر کام بھی ہورہا ہے کہ بتدریج وہاں پر متبادل جو روزگار ہے، سہولیات ہے وہ فراہم کی جائیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ نے دیکھا ہوگا میں نے اپنی بریفنگ میں بھی بات کی چمن میں جب یہ ون ڈاکومنٹ رجیم کا انقعاد ہو تو حکومت نے اور فوج کے تعاون کے ساتھ حکومت نے فوج کے ساتھ مل کر متبادل مارکیٹ بنائی، وہاں دکانیں بنائی جارہی ہیں اور سہولیات فراہم کی جارہی ہیں بجلی کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ بھی آپ کو پتہ ہونا چاہیے وہاں سے جو چیزیں آتی ہیں جو تیل آتا ہے، اس کے پرمٹ فوج یا آرمی یا ایف سی تو نہیں جاری کرتی، آرمی اور ایف سی تو غیر قانونی طور پر سامان کی تجارت کو ختم کرنے کے خلاف مستقل کوشش کررہی ہے، اگر اپ نمبرز کو دیکھیں تو یہ کہاں پندرہ سو ملین یومیہ سے کم ہوکر پانچ چھ ملین رہ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فوج کی ایف سی کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی، انٹیلیجنس کے، لیویز کے ان سب کی مشترکہ کوششوں سے ہی ہوا ہے تو یہ مسئلہ جس پر ایف سی، انٹیلیجینس، قانون نافذ کرنے والے ادارے، تمام ادارے لگے ہیں لیکن اس کا مستحکم ، طویل مدتی، پیپل سینٹرک حل چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اہم مسئلہ ہے جس کو ہمیں سمجھنا ہوگا، پاکستان کا جو مغربی بارڈر ہے تقریبا 3500 کلومیٹر سے اوپر ہے اس میں جو افغانستان کا حصہ ہے وہ 2600 کچھ کلومیٹر ہے اور جو ایران کے ساتھ ہمارا ہے وہ میرے خیال سے 950 کلومیٹر کے قریب ہے، تو یہ جو بارڈر ہے یہ بڑی مشکل جگہ ہے جسے ہم کہتے ہیں دشوار گزار، طویل بھی ہے اور دشوار بھی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب باڑ لگائی تو اس باڑ کے لگانے سے جو غیر قانونی آمدورفت ہے، نقل و حرکت ہے، اس میں کمی بھی آئی، وہ چینلائز بھی ہوئی، اس کے فائدے ہوئے لیکن یہ کہنا چونکہ اب باڑ لگ گئٰی ہے اور سیکیورٹی لگ گئی ہے اب تو پرندہ بھی پر نہیں مارے گا، یہ زمینی حقائق کی صحیح سمجھ نہیں ہے اور اس کے کچھ فیکٹرز ہیں۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے دنیا میں کوئی بھی سرحد واٹر ٹائپ کنٹرول نہیں ہوتی، آپ مثال لے لیں امریکا اور میسیکو کی سرحد ہے ، امریکا کے پاس بہت وسائل ہیں، ٹیکنالوجی کے ہوں ، سیکیورٹی کے ہوں ، ملٹری کے ہوں لیکن پھر بھی جو امریکا کا میکسیکو کے ساتھ بارڈر ہے، اس میں غیر قانونی نقل و حرکت، اسمگلنگ ایک مدعا ہے یا نہیں ہے، اس کے مقابلے میں آپ پاکستان اور افغانستان کا بارڈر دیکھیں، بہت مشکل جگہ ہے اور ہمارے پاس تو نہ وہ معاشی وسائل ہیں، نہ اتنا پیسا ہے، نہ وہ ٹیکنالوجی ہے، نہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری سیٹلائٹٹس اوپر سے ایک سوئی بھی دیکھ لے حرکت کرتے ہوئے ، نہ اس طرح ہمارے ڈرونز پھر رہے ہیں پورے علاقے میں، نہ ہمارے پاس اس طرح کے وسائل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تو یہ کہنا ہاں جی باڑ لگ گئی، کوئی چیز باہر جارہی ہے تو سرپرستی فوج کررہی ہے، ایف سی کررہی ہے، امریکا میں کیوں ان کی عوام نہیں کہتی کیونکہ وہاں کوئی جھوٹا پراپیگنڈا اس طرح کا کوئی فیک نیوز پراپینگینڈا جو سسٹمیٹک طریقے سے کیا جارہا ہے نہ وہ اس کی اجازت دیتے ہیں نہ وہاں پر کوئی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا مدعیٰ یہ ہے کہ دو ملکوں کے درمیان جو سرحدیں ہوتی ہیں یہ مشترکہ طور پر ہوتے ہیں، یکطرفہ کوئی نہیں ہوتا، دونوں ملک مل کر یہ یقینی بناتے ہیں کہ ادھر سے ادھر سے کوئی اسمگلنگ نہیں ہوگی، غیر قانونی نقل وحرکت نہیں ہوگی، نقل و حرکت ویزے پر ہوگی اور ہر چیز جو ہے وہ ایک ترتیب قوانین و قاعدے کے مطابق ہو گی آپ مجھے بتادیں پاکستان کے دوسری طرف جو سرحد ہے، اس میں آپ کو یہ چیز نظر آتی ہے، یہ ون ڈاکومنٹ رجیم ویزا اس پر ہم عمل کرتے ہیں ادھر سے تو کوئی نہیں کرتا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اور اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو پاک افغان جو بارڈر ہے میرے خیال سے 1457، میرے خیال سے 1452 کے قریب پاکستان کی چیک پوسٹیں ہیں جب کہ افغانستان کی جو چیک پوسٹیں ہیں وہ کوئی دو سو کے قریب ہیں، دو سو سے تھوڑی زیادہ ہیں اگر عام طور پر دیکھا جائے تو میرے خیال سے شرح ایک پاکستانی چیک پوسٹ پر میرے خیال سے اعداد و شمار میں تھوڑا سا کم زیادہ ہوگا، پاکستان کی 5 چیک پوسٹس کے مقابلے افغانستان نے ایک چیک پوسٹس بنائی ہے۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ تو اس سے وہ بھی نظر آجاتا ہے کہ وہ مینیج کریں، کنٹرول کریں، وسائل کی کمی بھی ہو سکتی ہے لیکن دلچسپ طور پراگلا نقطہ جو تیسرا نقطہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے وہ جو سرحد کے کراسنگ کے مقامات ہیں جہاں سے یہ زیادہ تر آمد و رفت ہوتی ہے وہاں پر صرف ایف سی کی تعیناتی نہیں ہے وہاں متعدد ایجنسیز تعینات ہیں۔
’مہاجرین کی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں‘
انہوں نے بتایا کہ وہاں کسٹمز ہے، ایف آئی ہے، لیویز ہے، ایف سی ہے جن کا زیادہ کام حفاظت کے لیے ہوتا ہے اور اس کے علاوہ متعدد اور ایجنسیز ہیں اور ضرورت اس امر کی ہے ان پر ایک سینٹرل انتظامی دھانچہ بنایا جائے تاکہ یہ جو بیانیہ جاتا ہے کہ یہ اس کو پار کرائے، یہ اس کو پار کرائے، تو ایک سینٹرل اٹھارٹی بنائیں جو اتھرائز بھی ہو ، اختیار بھی ہو اورذمہ دار بھی ہو اور ان کے درمیان محکماتی ڈیپارٹمنٹل کوارڈینیشن بھی بہتر ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہاں پر بہت افغانی بھی ہیں، نقل و حرکت بھی بہت زیادہ ہے اور افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے، اس کا بھی اسٹریس ہے، ان سرحدات کراسنگز پر تو یہاں پر جو وسائل ہیں ان کو بڑھایا جائے تاکہ جس رفتار کے ساتھ وہاں نقل و حرکت ہونی ہے، اس کے تکینیکی الات کو بڑھایا جائے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اور اس سلسلے میں جو آپ کی حکومت ہے وہ بڑی سنجیدگی سے اس پر کام کررہی ہے تا کہ سسٹم کو زیادہ موثر اور ایک سینٹرل اٹھارٹی کے نیچے لائی جائے لیکن یہاں پر ایک اور مسئلہ ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ پاک افغان جو بارڈر ہے، اس پر متعدد تقسیم شدہ گاؤں اور قبائل ہیں اور یہ صدیوں سے ہیں، اس علاقے میں تو جس طرح ہم یہاں سمجھتے ہیں کہ سرحدات کو اس طرح سنبھالا جاسکتا ہے اور اس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے نقل و حرکت کو اس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے تو زمینی حقائق پر صورتحال ٹھوڑی مختلف ہے۔
انہوں نے کہاکہ اور پھر پانچویں بات یہ ہے کہ آپ کا یہ جو افغانی ہیں، مہاجرین کی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں، رجسٹرڈ بھی ہیں اور غیر قانونی بھی ہیں اس کی وجہ سے بھی آپ کی نقل وحرکت وہ بہت آسان نہیں ہے کیونکہ یہاں پر لوگ موجود ہیں لاکھوں کی تعداد میں، ڈاکومنٹس بھی غیر قانونی بنے ہوئے ہیں اس لئے آپ نے دیکھا ہوگا کہ کافی عرصے سے یہ جو حکومت جونسی ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور کوشش مستقل طور پر کررہے ہیں کہ یہ جو غیر قانونی تارکین وطن ہیں انہیں اپنے ملک واپس جانا ہوگا، اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی ایک اہم اگر اس پر کام مکمل کیا جائے، جس طرح کیا جارہے اس میں بھی آپ کے غیر قانونی طور پر نقل و حمل وہ کم ہوگی، اگر آپ ان ساری چیزوں کا احاطہ کریں۔
’ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف قانون اپنا رستہ نہیں بنا رہا‘
انہوں نے کہا کہ میں نے جو آپ کو تفصیل سے بتائی ہیں تو آپ کو یہ اندازہ ہوگا یہ جو بیانیہ بناتے ہیں کہ یہ جو باڑ ہے اور سیکیوڑٹی لگ گئی ہے اور اب تو کوئی چیز اگر آرہی ہے وہ تو فوج کی سرپرستی میں آرہی ہے اور وہ جان کر یہ کررہے ہیں تو اس بیانیے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو یہ بیانیہ بنانے والے زمینی حقائق سے بلکل بے خبر ہیں، کچھ نہیں انہیں پتا یا پھر انہیں مکمل پتا ہے اور وہ صرف ایجنڈے پر ہیں کہ ہمیں اس بیانیے کو بنانا ہے اور ہم نے لوگوں کو بے وقوف بنانا ہے فوج کے اور عوام کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنی ہے ہم نے لوگوں کے ذہن میں زہر گھولنا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اور میرا یہ خیال ہے کہ زیادہ یہ بیانیہ بنانے والے لوگ بے خبر نہیں ہیں، بلکل باخبر ہیں اور جان کر بناتے ہیں، دوسری وجہ اس کو بنانے کی ایک اور فائدہ بھی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ جو مسئلہ ہے اس کو اتنا متنازع کردو، اتنا کنفیوز کردو تاکہ جو اصل مسائل ہیں جن کی ہم نے نشاندہی کی وہ حل نہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا فائدہ یہ جو غیر قانونی نیٹ ورک جو اربوں روپے کما رہا ہے جب مسائل حل نہیں ہوں گے تو ان کی دہاڑیان چلتی رہیں گی، آپ نے اس مسئلے کو اتنا سنگین بنادیا ہے اور کنفیوز کردیا ہے یہ جو میں نے آپ کو بتائیں اصل وجوہات ہیں جو اصل ان ڈر اسٹینڈنگ ہے وہ بننے نہ دیں تو اس لئے وہ یہ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس لیے ہمیں یہ چاہیے ہم اصل اس مسئلے کو سمجھیں، اس کا بھرپور تدراک کریں اور اہم نقطہ یہ ہے وہ یہ ہے کہ باوجود اس کے جو بیانیہ بنایا جاتا ہے ہمیں اس بات کو سراہنا چاہئے کہ باڑ لگنے سے اور سیکیورٹی لگانے غیر قانونی نقل و حمل کم ہوئی ہیں اور ان پر کنٹرول آیا ہے، یہ آئیڈیل نہیں ہے لیکن یہ بہتر ہو سکتی ہے اگر ہم اس پر کام کرتے رہیں۔
انہوں نے کہا کہ اور آپ نے دیکھا ہوگا اکثر و بیشتر شاید آپ نے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیزز میں بھی دیکھا ہوگا کہ یہ جو خارجی ہیں، ان خارجی دہشت گردوں کو ہم سرحد پر کئی دفعہ انگیج کرچکے ہیں اور وہ مارے جاتے ہیں کیونکہ اس باڑ سے ان کے لئے ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہے، ان کے لئے اور اس کی نگرانی ہورہی ہے۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اور سب سے اہم ایکشن جو ہم لے سکتے ہیں جو پکڑا جائے چاہے وہ دہشت گرد ہے چاہے وہ اسمگلر ہے چاہے وہ کوئی اور پراکسی ہے اس کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جائے، کیونکہ قانونی ڈیٹرینس کے بغیر آپ اس کام کو سر انجام نہیں دے سکتے۔
9 مئی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس پر فوج کا بڑا واضح مؤقف ہے، جو 7 مئی کی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس تھی، اس میں مؤقف بیان کیا گیا ہے، اس میں نہ کوئی تبدیلی آئی ہے، نہ آئے گی۔
فوج میں احتساب سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف جو پہلا دفاع ہے جس سے اس کو قابو کرنا ہے، اس کا تدارک کرنا ہے، وہ ہے قانون، بد قسمتی سے آپ کے سامنے ہے کہ جو جھوٹ ہے، پروپیگنڈا ہے، میڈیا پر کسی حد تک، سوشل میڈیا پر بڑی حد تک، بہت زیادہ کیا جاتا ہے، فیک نیوز، جھوٹ بولے جاتے ہیں، اس کے خلاف اس طرح سے رستہ نہیں بنا رہا، جس طرح سے اس کو بنانا چاہیے، تاہم افواج پاکستان اس معاملے پر بہت کلیئر ہے، اس لیے جو افواج اور عوام میں خلیج ڈالتا ہے، پروپیگنڈا کرتا ہے تو فوج اس کے خلاف ضروری قانونی کارروائی کرے گی، بیرونی ملک بیٹھ کر پروپیگنڈا کرنے والے بے ضمیر لوگ چند پیسوں کے لیے اپنی ریاست، اپنے اداروں اور اپنے عوام کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔
’پاکستان کیخلاف مہم پر پیسا لگانے والوں کو ملک میں انتشار چاہیے‘
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے چلنے والی پروپیگنڈا مہم سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ کون اور کیوں یہ مہم چلا رہا ہے، اس وقت تک جنوری سے اب تک عالمی میڈیا میں ملک کے خلاف 127 مضامین لکھے جا چکے ہیں جن کا مقصد مایوسی، انتشار پھیلانا اور مخصوص سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینا ہے، لابنگ کرنا، سرکاری دوروں پر احتجاج کرنا، سفارت خانوں کے سامنے احتجاج کرنا، اس کے پیچھے منصوبہ بندی ہوتی ہے، اس پر بہت پیسا لگایا جاتا ہے، لابنگ فرمز کی خدمات لی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بیانیے کے بجائے کاش یہ پیسا فلسطین میں ہونے والی نشل کشی کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے لگایا جاتا، کشمیر کے لیے پیسا لگاتے، یہ پیسا رائزنگ پاکستان کے لیے لگاتے، لیکن نہیں، وہاں پیسا لگایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی مدد نہ کی جائے، جو لوگ فلسطینوں کی نسل کشی پر خاموش ہیں، ان سے پاکستان میں انسانی حقوق کا بیانیہ بنایا جا رہا ہے، اس پر پیسا لگایا جا رہاہے، یہ اتنا پیسا کہاں سے آیا ہے، کیا یہ پیسا ایسے ہی رضا کارانہ طور پر لگایا جا رہا ہے، جو لوگ اس مہم پر اتنا پیسا لگا رہے ہیں، وہ اس کی کوئی نہ کوئی قیمت کو مانگیں گے اور قیمت ہے انتشار، وہ مانگتے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں انتشار چاہیے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ سیاسی عزائم رکھنے والے جو ملک میں انتشار چاہتے ہیں، انہیں افواج اور عوام پہچانتے ہیں اور ان کے سامنے کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔
’بلوچ یکجہتی کمیٹی دہشت گردوں، جرائم پیشہ عناصر کی پراکسی ہے‘
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بلوچستان میں احتجاج سے متعلق سوال پر کہا کہ صوبے میں حکومت کی رٹ برقرار ہے، واضح کردوں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی نام نہاد قیادت دہشت گرد تنظیموں اور جرائم پیشہ مافیاز کی پراکسی ہے، اس سے زیادہ نہ کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پراکسی کو یہ کام ملا ہے کہ جو قانون نافذ کرنے والے ادار، جو ایجنسیز جرائم پیشہ مافیا، اسمگلرز اور غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کام کر رہے ہیں، انہیں بدنام کیا جائے، صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں کو متنازع بنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا طریقہ واردات بیرونی فنڈنگ ار بیانیے پر جتھا جمع کروِ، اس کے گرد معصوم شہریوں کو ورغلالاؤ، ریاست کی رٹ کو چیلنج کرو، پھتراؤ کرو، آگ لگاؤ، بے جا مطالبات پیش کرو اور جب ریاست جواب دے تو معصوم بن جاؤ، اس کے ساتھ پھر انسانی حقوق کے نام پر ایجنڈا رکھنے والے ان کے حق میں آکر بولنا شروع کردیتے ہیں، یہ ہی وہ تماشہ ہے جس کو آپ نے گزشتہ دنوں گوادر میں دیکھا جس کا راجی مچی تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ حکومت نے انہیں مظاہروں کی اجازت دی، کہا آپ کا حق ہے لیکن سڑکیں جام نہیں کریں، طے شدہ جگہ پر آئینِ بات چیت کریں، احتجاج کریں، انہوں نے کہا کہ ہم نے سڑکیں بلاک کرنی ہیں، ترقیاتی منصوبوں کو نقصان پہنچائیں گے، پھر آپ نے دیکھا کہ انہوں نے سڑکیں بلاک کیں، لوگوں کو تکالیف ہوئیں، زائرین پر پتھراؤ بھی ہوئے، آگ لگائی گئی، ایف سی پر حملہ کیا، ایک سپاہی کو شہید کیا، قانون نافذ کرنے والے اداوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا، ان کو لاشیں نہیں دیں جن کے لیے وہ آئے تھے۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ راجی مچی کے نیچے جو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی پراکسی ہے، یہ بے نقاب ہوئی، بلوچستان کے عوام نے اسے مسترد کیا، یہ ہے اس کی حقیقت، یہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے، یہ دہشت گردوں، جرائم پیشہ، غیر قانون کاروبار اور اسملنگ میں ملوث عناصر پراکسی ہے۔