مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کیخلاف یوم استحصال کشمیر منایا جا رہا ہے
مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019 کو بھارت کے غیر قانونی اقدام کے خلاف آج ملک بھر میں یوم استحصال کشمیر منایا جا رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو 5 سال مکمل ہو گئے ہیں، دنیا بھر میں پاکستانی اور کشمیری یوم استحصال منا رہے ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق حریت کانفرنس نے یوم استحصال کشمیر پر وادی بھر میں مکمل ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے، لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف بھارت مخالف احتجاجی مظاہرے ہوں گے۔
صدر، وزیر اعظم کا پیغام
صدر مملکت آصف زرداری نے یوم استحصال پر پیغام میں کہا ہے کہ آج مقبوضہ کشمیر پر بھارتی غیرقانونی قبضہ مستحکم کرنےکو 5 سال ہو رہے ہیں۔
آصف زرداری کا کہنا تھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کمزور کرنے کے لیے غیرقانونی اقدامات کیے، تمام بھارتی اقدامات سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی اقدامات چوتھے جنیوا کنونشن اور عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہیں، لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر دنیا کا بڑا عسکریت زدہ علاقہ ہے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیر کے عوام کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے یوم استحصال کے موقع پر پیغام میں کہا ہے کہ آج کا دن یومِ استحصال کے تاریک دن کی یاد دلاتا ہے، 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اقدامات کی شروعات ہوئی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ زمینی صورتحال بھارت کےدعوؤں کا پردہ فاش کرتی ہے، بھارت ہر قسم کا گھناؤنا ہتھکنڈا اپنا رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں سیاسی قیدیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ 14 کشمیری سیاسی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا، محاصرے و تلاشی کی کارروائیاں معمول بن چکی ہیں، بھارتی فوج ڈھٹائی سے ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام کے حوصلے، بہادری کو سلام پیش کرتا ہوں، بھارت کا ہر قسم کا ظلم و جبر ناکام رہا ہے، جنوبی ایشیا میں امن مسئلہ کشمیر کے حل پر منحصر ہے، عالمی برادری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے۔
شہباز شریف نے کہا کہ 5 اگست 2019 کےغیر قانونی اقدامات کو واپس لیا جائے، اقوام متحدہ کی کی قراردادوں پر عمل کروایا جائے۔
نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحق ڈار نے یوم استحصال کشمیر کے موقع پر کہا کہ 5 سال قبل بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کر کے جو کام کیا وہ غیر آئینی ہے، وہ اقوام متحدہ کے قراردادوں کے منافی ہے، بھارت کو لگتا ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کر کے ترمیم کر سکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت کا کوئی بھی فیصلہ کشمیر کو لے کر وہ قابل قبول نہیں، شہباز شریف کی قیادت میں پاکستانی حکومت اس وقت کشمیر کا مقدمہ لڑ رہی ہے دنیا میں، ہم نے ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اٹھایا اسی طرح ہم نے غزہ کے لیے بھی آواز اٹھائی، بھارت اگر جمہوریت کا دعوے دار ہے تو کشمیر میں رائے شماری کروائے، بھارت کشمیر کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے تاکہ غیر مقامی لوگ وہاں پراپرٹی خریدیں، وہاں رہائش اختیار کریں، اور مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیں۔
اسحق ڈار نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ کشمیروں کو آزادی عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے دین کو آزادی کے ساتھ اپنا سکیں، کشمیر ایک دن پاکستان میں شامل ہوگا اور پاکستان کا حصہ ہوگا۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی، بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کرکے کشمیریوں کا بدترین استحصال کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو اور دفعہ 144 نافذ ہے، 5 سالوں میں کئی ہزار بے گناہ کشمیری شہید ہوچکے ہیں، جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین شامل ہیں۔
ادھر، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے یوم استحصال کشمیر پر پیغام میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے ہر شہید کو سلام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے ہر مظلوم اور محصور، کشمیر کی ماؤں، بہنوں، بیٹوں اور بیٹوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ اُس وقت کے بھارتی صدر رام ناتھ کووِند نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بل پر دستخط کر دیے تھے۔
خصوصی آرٹیکل ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا۔
مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔
آرٹیکل 370 کو ختم کرکے وہاں کانسٹی ٹیوشن (ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر) آرڈر 2019 کا خصوصی آرٹیکل نافذ کردیا گیا ہے ، جس کے تحت اب بھارتی حکومت مقبوضہ وادی کو وفاق کے زیر انتظام کرنے سمیت وہاں پر بھارتی قوانین کا نفاذ بھی کرسکے گی۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کیا ہے؟
واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل تھا اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا تھا۔
اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔
مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 ’اے‘ اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔
1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 ’اے‘ آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔
اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔
آرٹیکل 35 ’اے‘ کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر کے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
آئین کے آرٹیکل 35 ’اے‘ کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔