دنیا

بنگلہ دیش میں سول نافرمانی تحریک کے پہلے روز 91 افراد جاں بحق، ملک بھر میں کرفیو نافذ

ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی، دارالحکومت ڈھاکا سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان بدترین جھڑپیں ہوئیں۔

بنگلہ دیش میں طلبہ گروپ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کردیا گیا ہے جس کے پہلے ہی روز پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 91 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔

غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں اے ایف پی او رائٹرز کے مطابق بنگلہ دیش میں طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کردیا گیا ہے اور پہلے ہی روز مظاہرین اور پولیس میں جھڑپوں کے دوران اب تک کم از کم 91 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔

پولیس ترجمان قمر الاحسن کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں اور احتجاج کے دوران جھڑپوں میں کم از کم 50 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مرنے والوں میں 14 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ 300 سے زائد اہلکار زخمی بھی ہیں۔

تاہم اس کے بعد پولیس حکام نے مزید اموات کی بھی تصدیق کی جبکہ اس تعداد میں مزید اضافے کا بھی اندیشہ ہے۔

91 اموات بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ میں کسی بھی احتجاج یا مظاہرے کے دوران ایک دن میں ہونے والی سب سے زیادہ اموات ہیں جہاں اس سے قبل سب سے زیادہ حال ہی میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ہونے والے احتجاج کے موقع پر ہوئی تھیں جب ایک ہی دن میں کم از کم 67 افراد جاں کی بازی ہار گئے تھے۔

وزارت داخلہ نے ملک بھر میں شام چھ بجے کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور گزشتہ ماہ شروع ہونے والے احتجاج کے بعد پہلی مرتبہ حکومت کی جانب سے اس طرح کا اقدام اٹھایا گیا ہے۔

اس صورتحال کی وجہ سے حکومت نے ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس بند کردی ہے جہاں حکومت کے مخالفین، طلبہ اور انسانی حقوق کے ادارے حکومت پر اس تحریک کے خلاف طاقت کے وحشیانہ استعمال کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

مظاہرین نے ملک کی اہم شاہراہیں بلاک کردی ہیں اور حکومت سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

وزیر اعظم حسینہ واجد نے نیشنل سیکیورٹی پینل کے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلبہ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں جو ملک کو غیرمستحکم کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان دہشت گردوں کو آہنی ہاتھوں سے کچل دیں۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ منشی گنج کے وسطی ضلع میں مظاہرین، پولیس اور حکمران جماعت کے کارکنوں کی تین طرفہ جھڑپوں میں دو مزدور کام پر جاتے ہوئے ہلاک اور 30 ​​زخمی ہو گئے۔

پولیس اہلکار بیجوئے بوساک نے بتایا کہ سراج گنج کے شمال مغربی ضلع میں 12 پولیس اہلکاروں کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

پولیس اور عینی شاہدین نے بتایا کہ دارالحکومت ڈھاکا میں کئی مقامات پر شدید جھڑپوں کے دوران دو طلبا اور حکمران جماعت کے رہنما سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

ضلعی ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ابو حنا محمد جمال نے کہا کہ ان افراد کو گولیاں لگی تھیں لیکن وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ چکے تھے۔

ادھر پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی گولی نہیں چلائی تاہم دیسی ساختہ بم کے پھٹنے سے علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ شمال مشرقی ضلع پبنا میں مظاہرین اور حکمران جماعت عوامی لیگ کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے دوران کم از کم تین افراد ہلاک اور 50 زخمی ہوئے۔

ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ شمالی ضلع بوگورا میں تشدد میں دو مزید افراد ہلاک اور نو دیگر اضلاع میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔

پولیس انسپکٹر الہلال نے اے ایف پی کو بتایا کہ طلبہ اور حکمران جماعت کے لوگوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جہاں ڈھاکا کے علاقے منشی گنج میں دو نوجوان مارے گئے۔

ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مرنے والوں میں سے ایک کے سر میں وار کیا گیا اور دوسرے کو گولی لگنے سے زخم آئے تھے، پورا شہر میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔

پولیس نے بتایا کہ شہر کے شمالی علاقے کشیور گنج میں دو افراد ہلاک ہوئے جہاں مظاہرین نے حکمران جماعت کے دفتر کو نذر آتش کر دیا۔

فور جی سروسز بند

ادھر خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق بنگلہ دیش کے حکام نے ٹیلی کام سروسز فراہم کرنے والوں کو فور جی سروسز کو بند کرنے کی ہدایت کی جس کا مطلب ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی بالکل محدود کر دینا ہے۔

حکومت کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ حکومتی احکامات میں آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ آپ اپنی تمام فور جی سروسز کو تاحکم ثانی بند کر دیں اور صرف 2جی سروسز ہی چلانے کی اجازت ہے۔

اس سے قبل ٹیلی کام کمپنیوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے حکومتی احکامات کی تعمیل نہیں کی تو ان کے لائسنس منسوخ کر دیے جائیں گے۔

دارالحکومت ڈھاکا میں ایک گروپ کی جانب سے میڈیکل کالج ہسپتال میں توڑ پھوڑ اور ایمبولینس سمیت گاڑیوں کو آگ لگانے کے بعد وزیر صحت سمنتا لال سین ​​نے کہا کہ ہسپتال پر حملہ ناقابل قبول ہے، سب کو اس سے باز رہنا چاہیے۔

پولیس نے بتایا کہ لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مسلح مظاہرین کا بہت بڑا ہجوم اتوار کو ڈھاکا کے مرکزی شاہ باغ اسکوائر میں امڈ آیا جبکہ اس کے علاوہ دیگر اہم شہروں میں بھی سڑکوں پر لڑائیاں اور جھڑپیں ہوئیں۔

پولیس نے کہا ہے کہ شام 6بجے ملک گیر کرفیو کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ریلیوں کو منتشر اور ناکام بنانے کے لیے موبائل انٹرنیٹ تک رسائی کو بڑے پیمانے پر روک دیا گیا ہے۔

اتوار کو ہونے والے تشدد کے بعد گزشتہ ماہ سے اب تک ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد کم از کم 230 ہو گئی ہے۔

ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک کے اہم اور سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک آصف محمود نے گزشتہ ماہ حکومت کی جانب سے ریلی میں کریک ڈاؤن کے بعد اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ تیار رہیں۔

انہوں نے اتوار کو فیس بک پر مظاہرین کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ بانس کی لاٹھی تیار کرو اور بنگلہ دیش کو آزاد کراؤ۔

اس کے بعد سے کچھ سابق فوجی افسران نے طلبہ کی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور سابق آرمی چیف جنرل اقبال کریم بھویاں نے ان کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی فیس بک پروفائل کی تصویر کو سرخ کر دیا۔

اقبال کریم نے اتوار کو دیگر سینئر سابق افسران کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں گزشتہ تین ہفتوں کے دوران بنگلہ دیش میں ہونے والی تمام سنگین ہلاکتوں، تشدد، گمشدگیوں اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں پر شدید تشویش ہے اور ہم اس پر پریشان اور غمزدہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم موجودہ حکومت سے فوری طور پر مسلح افواج کو سڑکوں سے ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ لوگ اب اپنی جانیں قربان کرنے سے نہیں ڈرتے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس ملک کے لوگوں کو اس انتہائی بدحالی کی طرف دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔

موجودہ آرمی چیف وقار الزماں نے ہفتے کے روز ڈھاکا میں فوجی ہیڈکوارٹرز میں افسران کو بتایا کہ بنگلہ دیش کی فوج عوام کے اعتماد کی علامت ہے۔

فوج کی جانب سے جاری بیان میں آرمی چیف نے کہا کہ فوج ہمیشہ لوگوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور عوام کی خاطر اور ریاست کی کسی بھی ضرورت میں ایسا کرے گا۔

تاہم بیان میں یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آرمی اس احتجاج کی حمایت کرتی ہے یا نہیں۔

17 کروڑ آبادی کے حامل ملک بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج تر حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہو گیا۔

اس عوامی تحریک میں بنگلہ دیش کے تمام فلمی ستاروں، موسیقار اور گلوکار، شاعر، ادیب، طلبہ، سیاستدان سمیت تمام طبقہ فکر کے لوگ شامل ہیں اور مظاہرے کی حمایت کرنے والوں کے ریپ گانے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر وائرل ہو چکے ہیں۔

سخاوت نامی خاتون نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم حسینہ واجد کو ’قاتل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج اب نوکریوں کے کوٹے کے بارے میں نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ملک میں آزادی سے رہ سکیں۔

حسینہ واجد کی حکمران عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری عبیدالقادر نے پارٹی کارکنوں سے حکومت کی حمایت کے لیے ملک کے ہر ضلع میں جمع ہونے کی اپیل کی ہے۔

76 سالہ حسینہ 2009 سے بنگلہ دیش پر حکومت کر رہی ہیں اور انہوں نے جنوری میں مسلسل چوتھے انتخابات میں کسی مخالفت کے بغیر کامیابی حاصل کی تھی کیونکہ ملک کی مرکزی اپوزیشن جماعت نیشنل پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا۔

انسانی حقوق کے اداروں کا الزام ہے کہ حسینہ واجد ریاستی اداروں کا غلط استعمال کر کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہیں اور اپنی مخالفت کے خاتمے کے لیے اپوزیشن کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل سمیت دیگر غیرانسانی اقدامات میں ملوث ہیں۔