پاکستان

حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی میں نوشکی قتل پر دوبارہ ڈیڈلاک، دھرنا جاری

گوادر میں طویل دھرنے اور روڈ بلاک کے باعث اشیائے خور و نوش اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہوگئی ہے، انٹرنیٹ سروس بھی دوبارہ بحال نہ ہوسکی۔

نوشکی میں مظاہرین کے قتل کے الزامات کے بعد حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی قیادت کے درمیان ایک بار پھر سے ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے، جس کی وجہ گوادر سمیت دیگر مقامات پر جاری دھرنے ختم نہیں کیے جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو پورے صوبے میں احتجاج، سڑکوں پر رکاوٹیں اور دھرنا جاری رہا کیونکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور حکومت دونوں نے ایک دوسرے پر مظاہروں کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے کا احترام نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

تاہم، نوشکی میں مظاہرے میں شریک ایک بلوچ شہری کی ہلاکت کے بعد صورتحال ایک بار پھر کشیدہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیوں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے نوشکی میںحمدین بلوچ نامی شہری کی ہلاکت اور مظاہرے میں شریک دیگر دو شہریوں کو زخمی کرنے کا الزام سیکیورٹی فورسز پر لگایا ہے۔

گروپ نے دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک پرامن جلوس پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک شہری ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔

نوشکی کے ڈپٹی کمشنر امجد حسین سومرو نے ایک شخص کی ہلاکت کی تصدیق کی تاہم دعویٰ کیا کہ مظاہرین کی سیکیورٹی فورسز سے جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں یہ جانی نقصان ہوا۔

نوشکی واقعے کے ردعمل میں احتجاج کے پیش نظر، کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ نے ایک بار پھر سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کرکے ریڈ زون کی طرف جانے والی سڑکوں کو بند کردیا۔

اسی طرح کی رکاوٹیں پورے صوبے میں دیکھی گئی ہیں کیونکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حامیوں نے نوشکی میں دھرنا دیا اور کوئٹہ تفتان قومی شاہراہ کو بلاک کر دیا، جس کے باعث گاڑیوں کی آمدورفت معطل ہو گئی، جب کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت بھی متاثر ہوئی۔

کوئٹہ میں مظاہرین نے بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دیا اور مستونگ، قلات، خضدار، لسبیلہ اور حب میں کوئٹہ کراچی شاہراہ بلاک کردی، روڈ بلاک ہونے کے باعث کوئٹہ سے کراچی کے لیے کوئی بس یا ٹرک روانہ نہیں ہوا۔

احتجاج کے باعث گوادر سوراب پنجگور روڈ، یونیورسٹی چوک اور ہزار گنجی ایسٹرن بائی پاس بھی بند رہے جس سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اگرچہ ہفتہ کو نوشکی، چاغی، مستونگ، قلات، خضدار، خاران، پنجگور اور کیچ میں ہڑتالیں جاری رہیں تاہم بندرگاہی شہر گوادر میں کاروبار کھل گئے، یہ علاقہ گزشتہ ایک ہفتے سے تنازعات کا مرکز بنا ہوا تھا، سخت سیکیورٹی کی موجودگی میں کاروباری مراکز بند رہے، تاہم، علاقے میں انٹرنیٹ اور سیلولر خدمات ابھی تک دوبارہ شروع نہیں ہوئی ہیں۔

گوادر میں طویل دھرنے اور روڈ بلاک کے باعث اشیائے خور و نوش اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہوگئی، مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے ان اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے 80 کارکنان رہا

گوادر میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کرنے والے عہدیداروں نے دعویٰ کیا کہ گروپ نے دھرنا ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بی وائے سی کے 80 سے زائد حامیوں کو جنہیں احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، معاہدہ طے پانے کے فوراً بعد رہا کر دیا گیا، جب کہ ایف آئی آر میں نامزد دیگر افراد کو عدالتی کارروائی مکمل کرنے کے بعد 5 اگست تک رہا کر دیا جائے گا۔

ماہ رنگ بلوچ نے سرکاری ورژن سے اختلاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ گوادر میں بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) میں شرکت کے لیے گرفتار کیے گئے بی وائی سی کے کارکنوں اور حامیوں کو رہا نہیں کیا گیا ہے۔

گوادر کی مقامی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کر رہی ہے، بی وائے سی رہنماؤں نے کہا کہ گوادر میں دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کے 500 سے زائد حامیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔

مذاکرات

حکام نے گوادر میں مظاہرین سے مذاکرات کا نیا دور شروع کیا ہے جب ڈپٹی کمشنر امجد حسین سومرو اور اسسٹنٹ کمشنر عبدالصمد لہری مذاکرات کے لیے دھرنے کے مقام پر پہنچے۔

نوشکی سے رکن بلوچستان اسمبلی اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما میر غلام دستگیر بادینی اور منظور احمد مینگل نے بھی مذاکرات میں حصہ لیا۔

گوادر: ’لاپتا افراد‘ کے اہل خانہ کا احتجاج، رابطہ سڑکیں بند

گوادر: حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ

گوادر: بلوچ یکجہتی کمیٹی کا احتجاج، سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں کے بعد 3 ہلاک، متعدد گرفتار