پاکستان

حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے درمیان عدم اعتماد کے باعث گوادر دھرنا جاری

گزشتہ روز وزیرداخلہ بلوچستان میرضیا لانگو نے دعویٰ کیا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور کمیٹی کے ذمہ داران صوبے بھر میں دھرنے ختم کردیں گے۔

حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے درمیان دستخط شدہ معاہدے کے باوجود عدم اعتماد کے باعث کوئٹہ، گوادر اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں گزشتہ روز احتجاجی مظاہروں کا سلسہ جاری رہا، اس دوران سڑکوں پر رکاؤٹیں کے ساتھ ساتھ مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں بھی جاری رہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے سرکاری حکام نے دعویٰ کیا کہ معاہدے کے بعد درجنوں مظاہرین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حامیوں کو رہا کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں کمیٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ یہ احتجاج ختم کرے۔

تاہم، بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اصرار کیا کہ نوشکی کے علاقے میں حالات پہلے ہی خراب ہو چکے ہیں، جہاں شاہراہوں اور سڑکوں کو بلاک کرنے کے بعد جھڑپیں شروع ہو گئیں، کمیٹی نے الزام عائد کیا کہ جھڑپوں کے درمیان ایک شخص ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا، حالانکہ سرکاری حکام نے اس بات کی تصدیق نہیں کی، البتہ نوشکی کے مقامی حکام نے جھڑپوں کی تصدیق کی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیرداخلہ بلوچستان میرضیا لانگو نے دعویٰ کیا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور کمیٹی کے ذمہ داران صوبے بھر میں دھرنے ختم کردیں گے۔

مذاکرات میں حق دو تحریک کے چیئرمین حسین واڈیلا، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے ماجد سورابی، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے مولان اعبدالحمید سمیت دیگر رہنماوں نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔

گوادر میں ضلعی انتظامیہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد حکومت بلوچستان اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے درمیان 7 نکات پر مشتمل معاہدہ طے پایا تھا، جس پر عملدرآمد کے تحت 70 کارکنوں کو رہا کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

معاہدے کے نکات

معاہدے پر ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمٰن اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے دستخط ہیں۔

معاہدے کے متن کے مطابق دھرنا ختم کرنے سے قبل بلوچستان اور کراچی میں راجی مچی کی پاداش میں گرفتار افراد کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے گا، جن مظاہرین کو جیلوں میں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا ہے، انھیں عدالتی کارروائی کے بعد 5 اگست تک رہا کیا جائےگا۔

معاہدے کے مطابق حکومت بلوچستان حکومت سندھ سے رابطہ کرکے سندھ میں گرفتار افراد کی رہائی یقینی بنائے گی، راجی مچی کے دوران درج ہونیوالے تمام مقدمات واپس لیے جائیں گے۔

معاہدے کے نکات کے مطابق ان مقدمات کو ختم نہیں کیا جائے گا جن میں جانی نقصانات ہوئے ہیں، دھرنا ختم ہوتے ہی تمام شاہرائیں کھول دی جائیں گی اور 2 گھنٹے بعد موبائل نیٹ ورک بھی بحال کردیا جائےگا۔

معاہدے کے متن میں کہا گیا کہ انتظامیہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ذمہ داروں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے گی، تمام اشیا جو حکومتی قبضے میں ہیں، ایک ہفتے میں واپس کردی جائیں گی۔

اس میں کہا گیاکہ دھرنا ختم ہونے کے بعد دھرنے کی پاداش میں کسی کو ہراساں نہیں کیا جائے گا، راجی مچی کے دوران جاں بحق اور زخمی ہونیوالے افراد کے لواحقین کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جائےگا۔

معاہدہ کے مطابق دھرنے کے بعد کسی بھی شرکا کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا، گوادر میں میرین ڈرائیو پر جاری دھرنا ختم ہوتے ہوہی صوبے کے دیگر علاقوں کے دھرنے ختم کیے جائیں گے۔

ماہ رنگ بلوچ کا اعلان

تاہم، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے حکومتی دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے کارکنان اور حامی اب بھی زیر حراست ہیں، انہوں نے اعلان کیا کہ معاہدے پر مکمل عملدرآمد تک صوبے بھر میں دھرنے اور روڈ بلاک جاری رہیں گے۔

تاہم، حکام نے بتایا کہ گوادر دھرنے کے دوران گرفتار کیے گئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے 80 کے قریب ارکان کو رہا کر دیا گیا تھا، اور مزید کی رہائی جاری ہے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے لچک کا مظاہرہ کیا اور اب احتجاج کو ختم کرنا کمیٹی کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز کی معطلی کی وجہ سے مواصلاتی مشکلات کی وجہ سے مذاکرات سے متعلق مکمل معلومات جمع کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

محکمہ داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نے تصدیق کی کہ حکومت کی جانب سے ’بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کرنے‘ کے بعد تقریباً 80 گرفتار افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بی وائی سی قائدین نے جمعہ کی صبح 11 بجے تک احتجاج ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، ’ایف آئی آرز کی واپسی سے متعلق نوٹیفکیشن رات گئے کمیٹی رہنماؤں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اہلکار نے ڈان کو مزید بتایا کہ کافی دباؤ کے باوجود انتظامیہ نے بی وائے سی کے ساتھ بات چیت کی اور ٹرمز آف ریفرنس پر دستخط کیے، پھر بھی گوادر اور دیگر علاقوں میں احتجاج جاری ہے۔

اہلکار نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

فیکٹ چیک:

iVerify کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو سے متعلق حقائق کا جائزہ لیا گیا، جس میں دکھایا گیا ہے کہ ڈاکٹر ما ہ رنگ بلوچ کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے، تاہم یہ جون 2020 کی فوٹیج تھی۔

’بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دھرنا ختم کر دیا‘

بلوچستان کے شعبہ تعلقات عامہ نے جمعہ کی شام ایک بیان جاری کیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومت اور بی وائی سی کے درمیان کامیاب مذاکرات ہوئے، جس کی وجہ سے کمیٹی نے اپنا دھرنا ختم کر دیا۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ بی وائے سی کے سخت موقف کے باوجود صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے نرمی کا مظاہرہ کیا اور ان کے مطالبات کو ’عوام کے وسیع تر مفاد اور گوادر کے مستقبل‘ کی خاطر حل کیا۔

بیان کے مطابق بات چیت کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ بی وائی سی کے تمام گرفتار حامیوں کو رہا کیا جائے گا، اور اس مقصد کے لیے سندھ حکومت سے رابطہ کیا جائے گا، ’یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایف آئی آر کا سامنا کرنے والوں کو 5 اگست تک عدالتی کارروائی مکمل کرنے کے بعد رہا کر دیا جائے گا‘۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے ’راجی مچی‘ (بلوچ قومی اجتماع) کے شرکا کو محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا اور احتجاج کے دوران پولیس کی طرف سے ضبط کیا گیا تمام سامان واپس کر دیا جائے گا۔

اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس بحال کی جائے گی اور دھرنے کے بعد مظاہرین سمیت کسی بھی شہری کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی معطلی نے ان کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں رکاوٹ ڈالی، حالانکہ کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے تصدیق کی کہ کوئٹہ میں پرامن احتجاج جاری ہے۔

گوادر: ’لاپتا افراد‘ کے اہل خانہ کا احتجاج، رابطہ سڑکیں بند

گوادر: بلوچ یکجہتی کمیٹی کا احتجاج، سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں کے بعد 3 ہلاک، متعدد گرفتار

گوادر: حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ