نقطہ نظر

جنت نظیر پاراچنار فرقہ وارانہ فسادات کا گڑھ کیسے بنا؟

ضلع کرم میں بار بار فرقہ وارانہ پُرتشدد واقعات رونما کیوں ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے وجوہات کیا ہیں؟

خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں جائیداد کے تنازع نے ایک بار پھر 50 سے زائد افراد کی جانیں لے لی جبکہ 200 سے زائد افراد ان میں زخمی ہوئے۔ دو قبائل کے درمیان 6 روز سے جاری شدید جھڑپوں کے بعد پیر کے روز جرگے کی کاوشوں سے علاقائی امن کی بحالی کے لیے جنگ بندی کی گئی۔

پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے مطابق بوشہرہ اور مالی خیل قبائل کے درمیان گزشتہ ہفتے مسلح تصادم ہوا۔ دونوں اطراف نے ایک دوسرے کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے بھاری ہتھیاروں اور راکٹس کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ملحقہ علاقوں میں بھی دونوں قبائل کی جھڑپوں کے اثرات مرتب ہوئے اور جلد ہی یہ معاملہ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرگیا۔

کرم ضلع میں اس طرح کے پُرتشدد فسادات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی اسی طرح کے تصادم میں کم از کم 25 افراد جان سے گئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں بار بار پُرتشدد واقعات رونما کیوں ہوتے ہیں اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟

ضلع کرم جہاں تقریباً 8 لاکھ افراد مقیم ہیں، اس کی سرحدیں جنوب (خوست)، مغرب (پکتیکا) اور شمال (ننگرہار) میں افغانستان سے ملتی ہیں۔ مشرق میں اس کی سرحد اورکزئی ضلع سے ملتی ہے جوکہ فاٹا کا حصہ بھی رہ چکا ہے۔

پاراچنار کو ایک دور میں ’جنت نظیر وادی‘ کہا جاتا تھا۔ تاہم کڑے وقت نے اس کے انفرااسٹرکچر کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے۔

قبائلی اختلافات

ضلع کرم میں تین ڈویژنز ہیں، بالائی، وسطی اور زیریں۔ پاراچنار بالائی ڈویژن میں واقع ہے اور یہاں شیعہ مکاتب فکر کے ماننے والوں کی اکثریت آباد ہے۔ پاراچنار کی زیادہ تر آبادی طوری اور بنگش قبائل پر مشتمل ہے۔ وادی کے گرد پہاڑی چوٹیوں پر سنی قبائل آباد ہیں۔

انتہا پسند تنظیموں کی مداخلت سے دو قبائل کے درمیان جھگڑے کے بڑے مسئلے کی صورت اختیار کرلینے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ گزرتے سالوں میں آنے والی سماجی اور آبادیاتی تبدیلیاں جیسے ایرانی انقلاب، سنی افغان پناہ گزینوں کی آمد اور افغان جہاد کے دوران ہتھیاروں کی اس علاقے میں ترسیل وہ عوامل ہیں جو فرقہ وارانہ پُرتشدد واقعات میں شدت لانے کا سبب بنے۔

ضلع میں ہر کچھ سال بعد اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں جبکہ پاراچنار ان کا مرکز ہوتا ہے۔ ان میں 2007ء کا سال نمایاں ہے کہ جب علاقے میں خوفناک جھڑپیں ہوئیں جن میں 3 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 50 دیہات نذرِ آتش کیے گئے۔ ان فسادات کے بعد سیکڑوں رہائشی بے گھر ہوگئے تھے۔

اس وقت پاراچنار کی جانب جانے والی سڑک بھی کئی روز تک منقطع رہی اور رہائشیوں کو اس علاقے میں داخلے کے لیے کابل سے پاکستان میں دوبارہ داخل ہونا پڑتا تھا۔ جب بھی حالات خراب ہوں، یہ مسئلہ پیش آتا ہے۔

پوسٹ گریجویٹ کالج پاراچنار کے سربراہ، پروفیسر جمیل کاظمی اس دور کو یاد کرتے ہیں کہ جب کرم میں شیعہ اور سنی بھائی بھائی بن کر رہتے تھے۔ وہ افسوس کے ساتھ کہتے ہیں، ’جہاں چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں دونوں فرقوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا وہیں سازشی عناصر ان دونوں کے درمیان دراڑیں پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے‘۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے کرم کی امن کمیٹی کے رکن ملک محمود علی جان نے وضاحت کی کہ ضلع میں اراضی پر تنازعات اکثر ہوتے رہتے تھے اور اسی وجہ سے حکومت نے گزشتہ سال یہاں لینڈ کمیشن قائم کیا تھا۔

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ، ’بدقسمتی سے لینڈ کمیشن حکام اپنا کام کرنے میں ناکام رہے اور کرم سے چلے گئے۔ بالآخر پانی کی تقسیم، لکڑی کی کٹائی اور سڑکوں تک رسائی سے انکار پر کئی سالوں سے جاری قبائلی اختلافات، فرقہ وارانہ تنازعات میں تبدیل ہوگئے‘۔

ملک محمود علی جان نے کہا کہ حکام امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہے۔

’بری نظر‘

تازہ ترین جھڑپیں جو 24 جولائی کو زمین کے تنازع پر شروع ہوئیں، چند گھنٹوں میں ہی فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرگئیں۔ واٹس ایپ اور فیس بُک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اشتعال انگیز پیغامات پھیلائے گئے جن میں ’جہاد‘ کی دعوت دی گئی۔ لاؤڈ اسپیکرز سے بھی کچھ اسی طرح کے اعلانات کیے گئے۔

جلد ہی ’غیرمقامی لوگ‘ بھی ان جھڑپوں میں شامل ہوتے گئے اور ہمسایہ دیہات بھی ان فسادات کا حصہ بن گئے جن میں پیواڑ، تنگی، بالش خیل، کھڑ کلے، مقبل، کنج علی زئی، پارا چمکنی، اور کرمان شامل ہیں۔

لڑائی شدت اختیار کرلینے کے بعد پاراچنار کی مرکزی شاہراہ کو ٹریفک کی آمد ورفت کے لیے معطل کردیا گیا جس سے سیکڑوں افراد کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ کرم کے تاجروں نے کہا کہ ضلع میں سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے انہیں بھاری تقصان اٹھانا پڑا جبکہ ضلع میں ادویات اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت پیدا ہوگئی تھی۔

اس کے علاوہ تعلیمی ادارے بھی بند تھے جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بھی معطل رہی۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما پیر حیدر علی شاہ جو کرم میں جنگ بندی کروانے والے جرگے کے بھی رکن ہیں، کہتے ہیں کہ ’ضلع کرم کے رہائشی پہلے بھائی بھائی بن کر رہتے تھے لیکن ہمیں نہیں پتا کہ اس وادی کو کس کی بری نظر لگی ہے جوکہ پہلے جنت نظیر ہوا کرتی تھی‘۔

انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ شرپسند کیسے کامیاب ہوئے۔۔۔ پہلے بھی جب کبھی کرم آئے ہیں، ہم جنگ بندی کروانے ہی آئے ہیں۔۔۔ اس وادی کے دلکش نظاروں کے بجائے ہم نے صرف لاشیں اور زخمی افراد ہی دیکھے ہیں‘۔

سیاسی کارکنان اور سیاست دانوں نے اس کا ذمہ دار حکام کی نااہلی اور پروپیگنڈے کو قرار دیا ہے۔

سابق وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ساجد طوری نے بتایا کہ وہ فاٹا (سابق) کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’لیکن یہاں راتوں رات نظام تبدیل ہوگیا اور ان قبائلی اضلاع کو خیبرپختونخوا صوبے میں ضم کردیا گیا‘۔

ساجد طوری نے شکایت کی کہ، ’ہم نے یہ مسئلہ پہلے بھی اٹھایا ہے لیکن ہم سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا جن میں سالانہ ترقیاتی فنڈ کی فراہمی شامل ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرم اور دیگر علاقوں میں صورت حال مسلسل بگڑ رہی ہے۔

بنگش اور طوری قبائل کے سربراہ جلال بنگش نے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب میر افضل خان طوری نے کہا کہ سوشل میڈیا نے جعلی خبروں اور عوام میں نفرت کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کرم کے ایک اور سماجی کارکن عبدالخالقہ پٹھان نے بتایا کہ وہ ضلع کے ہر گھر تک خواہ وہ سنی ہو یا شیعہ، امن کے پیغام کو پہنچانے کی کوششیں کررہے ہیں۔

کرم کے علما حضرات نے بھی جھڑپوں کی مذمت کی ہے۔ علما نے اس بات پر زور دیا کہ دینِ اسلام قتل یا تشدد کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور مذہبی رہنماؤں کے حوالے سے کہتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان خلیج ختم کرنے اور اختلافات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے ڈان کو بتایا کہ ضلع میں تازہ ترین جھڑپیں ایک جرگے کی مدد سے متحارب قبائل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے بعد رک چکی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ضلع میں زندگی معمول پر لانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور گزشتہ رات اشیائے ضرورت سے لدے ٹرک بھی کرم میں داخل ہوئے ہیں۔

’گہرے سائے‘

شدید کشیدگی میں سب سے زیادہ کرم کے رہائشی متاثر ہوئے ہیں بالخصوص خواتین جن کے بھائی، والد اور خاوند ان فسادات کی نذر ہوچکے۔

پاراچنار کی رہائشی 28 سالہ مریم بتاتی ہیں، ’شہید ہونے والوں میں میرے بھائی بھی شامل ہیں‘۔ 2017ء میں علاقے میں ہونے والے دو دھماکوں میں میرے بھائی بھی شہید ہوئے تھے۔

ساجد اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔ ان کے سوگوران میں 6 بہنیں اور ایک بوڑھی والدہ ہیں۔ مریم نے ڈان کو بتایا، ’ساجد کی وفات کے بعد میری والدہ نے کفالت کی ذمہ داری اٹھائی اور اب وہ ایک ہسپتال میں دائی کے طور پر کام کررہی ہیں‘۔

مزید کہتی ہیں کہ ان کے بھائی کی وفات کے بعد سے ان کی تمام بہنیں اچھی تعلیم اور زندگی کے بہتر مواقع سے محروم ہوچکی ہیں۔

ان اختلافات کی وجہ سے کرم میں سب سے زیادہ نقصان تعلیم اور صحت کے شعبہ جات کو پہنچا ہے۔ ضلع میں کالجز اور جامعات کی طرف حکومت کی عدم توجہی نے نوجوانوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع کو نمایاں طور پر کم کیا ہے۔

یہ علحیدہ معاملہ ہے کہ ضلع میں جدید آلات، قابل عملے اور دیگر ضروریات کا فقدان ہے جن کی وجہ سے ہنگامی حالات میں بہتر علاج کی سہولیات فراہم نہیں ہوتیں۔

مذکورہ وجوہات، بار بار ہونے والی قبائلی جھڑپوں اور حکومتی بے حسی نے مل کر کرم کو گہرے سائے میں دھکیل دیا ہے۔ نتیجتاً معصوم بچے یتیم، خواتین بیوہ اور ہزاروں افراد زندگی بھر کی معذوری کا شکار ہوچکے ہیں۔

جیسا کہ ڈان اخبار کے اداریہ میں لکھا گیا، ’افغانستان کی سرحد سے متصل ایک سابق قبائلی ایجنسی کرم میں مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ریاست صرف تشدد پر ردعمل ظاہر کرتی ہے۔ یہ کچھ وقت کے لیے بنیادی تناؤ پر پردہ ضرور ڈال دیتا ہے لیکن پھر معمولی اشتعال پر فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔

’اس علاقے میں پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ طویل مدتی حل تلاش کیا جائے اور اس عمل میں ریاست، قبائلی عمائدین کے ساتھ ساتھ علما حضرات کو بھی شامل ہونا چاہیے کیونکہ یہ تمام کردار تشدد کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید حسین
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔