’بجلی کے بھاری بلوں سے نجات کی امید بہت کم‘، ماہرین کی رائے
ملک میں بجلی کی بھاری قیمتوں میں کمی کی امید کم ہے کیونکہ حکومت نے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کو آمدنی کا ذرائع بنا دیا ہے جب کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) اپنی کارکردگی اور حکومت کے ساتھ دستخط شدہ معاہدے پر بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے آزادانہ طور پر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات ماہرین نے جمعرات کو کراچی یونیورسٹی کے اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر (اے ای آر سی) میں منعقد ’پاکستان انرجی کرائسز اینڈ آئی پی پیز، کیسے اوور بلنگ معیار زندگی اور پاتھ ویز کو حل کرنے پر اثر انداز ہوتی ہے‘ میں ہونے میڈیا بریفنگ کے دوران کی۔
ماہرین نے یہ بھی کہا کہ بجلی کی اوور بلنگ اور مہنگی ہونے کا مسئلہ ایک ایسا بحران بن چکا ہے جو ملک کے غریب اور متوسط آمدنی والے گھرانوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے جس سے ان کے صحت، تعلیم، خوراک، ٹرانسپورٹ وغیرہ پر ہونے والے اخراجات متاثر ہو رہے ہیں۔
اے ای آر سی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عامر صدیقی کا کہنا تھا کہ بجلی کے چارجز جلد کم ہونے والے نہیں ہیں کیونکہ حکومت نے پیٹرول اور بجلی کو آمدنی کا ذریعہ بنا دیا ہے، ملک میں 100 کے قریب آئی پی پیز ہیں اور اتنے سپلائیرز کے ساتھ تو بجلی کی قیمتیں اگر سستی نہ بھی ہوں تو کم از کم مستحکم ہونی چاہئیں لیکن وہ مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان طلب سے زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہے لیکن پھر بھی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے اور اس سب کے درمیان، حکومت آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کرنے یا ان کے معیار اور خدمات کو بہتر بنانے کے لیے ان کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی، حالانکہ انہیں ڈالر میں ادائیگی کی جاتی ہے یا ڈالر کی شرح تبادلہ کے مساوی رقم دی جاتی ہے۔
سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر کراچی کے پرنسپل اکانومسٹ ڈاکٹر محمد صابر نے بتایا کہ بجلی کے نرخ اس وقت تک کم نہیں ہوں گے جب تک حکومت عوام کو اپنے مفادات پر ترجیح نہیں دیتی۔
انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ زیادہ تر معاہدوں پر عوام کے فائدے کے بارے میں سوچے بغیر دستخط کیے گئے، جو آئی پی پیز بالکل بھی بجلی فراہم نہیں کر رہے ہیں انہیں بھی وقت پر اور مکمل ادائیگی کی جا رہی ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اے ای آر سی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ سہیل نے کہا کہ بجلی کا سب سے بڑا صارف رہائشی شعبہ ہے اور پھر صنعتی اور رہائشی شعبہ ہے، خاص طور پر کم اور متوسط آمدنی والے گھرانے جو بجلی کی قیمت اوور بلنگ سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
جب بجلی کے چارجز بڑھ جاتے ہیں تو لوگوں کے صحت، تعلیم، خوراک، نقل و حمل، رہائش وغیرہ پر ہونے والے اخراجات کم ہو جاتے ہیں اور ان ضروری سہولیات کو بری طرح متاثر کرتے ہیں، یہی نہیں، کم آمدنی والے افراد کا ایک حصہ خط غربت سے نیچے چلا جاتا ہے جیسا کہ دیکھا گیا ہے، خاص طور پر کراچی میں۔