پاکستان

اسلام آباد: پیکا ایکٹ کا مقدمہ، رؤف حسن کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ملتوی

درخواستوں پر سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ شبیر بھٹی نے کی، رؤف حسن کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت پیش ہوئے۔
|

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما رؤف حسن و دیگر کی پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت درج مقدمے میں ضمانت بعد ازاگرفتاری کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

ڈان نیوز کے مطابق ضمانت کی درخواستوں پر سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ شبیر بھٹی نے کی، رؤف حسن کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ رؤف حسن کے خلاف ایف آئی آر میں الزامات واضح نہیں ہیں ، ایف آئی آر میں رؤف حسن پر سیکشن 9،10 اور 11 لگایا گیا ہے، سیکشن 9 کسی دہشت گرد تنظیم کی معاونت کرنے کے حوالے سے ہے ، سیکشن 10 ڈیجیٹل دہشگردی کے حوالے سے ہے ، سیکشن 10 کسی ادارے کے ڈیجیٹل سسٹم پر سائبر کا حملہ کرنے کے حوالے سے بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر اور سیکشنز کی تعریف میں بہت فرق ہے ، رؤف حسن 75 سال کے شخص ہیں اور کینسر اور دل کے مریض بھی ہیں ، طبی بنیاد پر بھی رؤف حسن ضمانت کے حق دار ہیں ، زندگی میں پہلی بار رؤف حسن کو اس طرح کے کیس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، 1974 کے ایف آئی اے کے ایکٹ کے رول 3 کے مطابق ایف آئی آر سے پہلے انکوائری کرنی ہوتی ہے۔

بیرسٹر نے بتایا کہ ایف آئی اے ایکٹ کے سیکشن 60 کے مطابق انکوائری کے لیے پہلے نوٹس کرنا ہوتا ہے ، اسی کے ساتھ بیرسٹر علی ظفر نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2018 کے قانون کے رول 7 کے سب شق 4 کے مطابق سب سے پہلے قانونی رائے لینی ہے ، اس کے بعد انکوائری ہوگی ، سرچ یا گرفتاری کے لیے بھی سی آر پی سی کے سیکشن 105 اور 103 کو بھی فالو کرنا ہوتا ہے ، اس کیس میں اس طرح کے کسی بھی پروسیجر کو فالو نہیں کیا گیا ، اس کیس میں 3 ملزمان کی ضمانت یہ عدالت منظور کرچکی ہے ، موبائل فونز اور لیپ ٹاپ پہلے سے ایف آئی اے کے قبضے میں ہیں۔

بعد ازاں بیرسٹر علی ظفر نے استدعا کی کہ رؤف حسن پر کوئی واضح الزام نہیں ہے اس لیے ان کی ضمانت منظور کی جائے۔

اس موقع پر عدالت نے کیس کے ریکارڈ آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا۔

سماعت کے دوبارہ آغاز پر رؤف حسن نے کی جانب سے علی بخاری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے تاہم ایف آئی اے پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

اس پر جج شبیر بھٹی نے ریمارکس دیے کہ سماعت پرسوں کے لیے رکھ دیتے ، ایف آئی اے والے کل بھی نہیں ہوں گے ، وکیل علی بخاری نے کہا کہ رؤف حسن کی فیملی آئی ہوئی ہے اس لیے سماعت کل کے لیے رکھ دیں ، آج کی سماعت کے حکمنامے میں ایف آئی اے پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر کی غیر حاضری لکھ دیں۔

بعد ازاں ایف آئی اے پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر کی عدم دستیابی کے باعث عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

گزشتہ سماعت پر ڈیوٹی جج مرید عباس نے رؤف حسن اور دیگر کو 2 دن کے جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کیا تھا، ایف آئی اے رؤف حسن اور دیگر کا مجموعی طور پر 7 دن کا ریمانڈ حاصل کرچکی ہے۔

یاد رہے کہ 25 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے رہنما پاکستان تحریک انصاف رؤف حسن و دیگر9 ملزمان کے خلاف پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں مزید 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا۔

23 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کے حوالے کردیا تھا۔

22 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکرٹریٹ پر چھاپہ مار کر سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کو گرفتار کر لیا تھا۔

اس سے قبل شبلی فراز نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر اور رہنما رؤف حسن دونوں کو گرفتار کرلیا لیکن پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ کس کیس میں انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔